افسانہ: کسی روتے ہوئے بچے کو ہنسایا جائے…..

استوتی اگروال،مدھیہ پردیش

میرے گھر کا ماحول ہمیشہ سے ہی دھارمک قسم کا رہا ہے۔میرے گھر والے پوجا،پاٹھ،دھرم وغیرہ میں پختہ بھروسہ کرتے ہیں۔میرا بھی یہی کہنا ہے کہ کوئی بھی مذہب برا نہیں ہوتا،لیکن اندھواشواس غلط چیز ہے۔میرے گھر والے کبھی ہنومان جی کی پوجا کرتے ہیں،کبھی رام کی کبھی کرشن کی کبھی درگا جی کی کبھی گنیش جی کی اور کبھی مورتیوں کی،جبکہ سبھی لوگ کہتے ہیں کہ سب کا مالک ایک ہے،لیکن پھر بھی میرے گھر والوں کا کہنا ہے کہ سبھی بھگوانوں کی پوجا کرنی چاہیئے۔میں پوجا پاٹھ پر زیادہ بھروسہ نہیں کرتی،لیکن ممی پاپا کے ساتھ تھوڑا بہت دکھاوا کرنا پڑتا ہے۔

آج میں تمام گھر والوں کے ساتھ سرونج کے پاس مشہور historicalجگہ دیو پور اسنان کرنے جانے کی تیاریوں میں لگے تھے۔دیو پور سرونج میں ایک ایسا استھان ہے جو تاریخی عتبار سے بہت مشہور ہے۔جس کے بارے میں کئی کتابوں میں حوالے ملتے ہیں خاص طور پر سرونج کی تاریخی کتاب ”آثارِ مالوا“ مصنف احمد مرتضیٰ نظر نے تو باقاعدہ تفصیل سے حوالہ دیا ہے۔وہ لکھتے ہیں…….
”دیو پور میں راجہ دیو منی کی حکومت تھی اور مہا دیو جی جن کا نام اس مقام پر وشوناتھ جی ہے۔ان کا دیوپور آشرم مقام عبادت تھا،جن کی بزرگانہ مہربانیاں راجہ مسکور کے حال پر بہت زیادہ مبذول تھیں۔اُسی زمانے میں راجہ رام چندر جی راجہ راون کو قتل کر کے ایودھیا کی گدی پر بیٹھے تھے۔رشی مُنی خدا رسیدہ فقرا نے رام چندر جی سے کہا کہ راون برہمن تھا اور برہمن کو مارنا شتری دھرم کے خلاف ہوا۔اس کا کفارہ اس طرح پہ ہو سکتا ہے کہ ایک گھوڑا زمین پر چھوڑا جائے۔لوگ اس کی اطاعت کریں اور جو راجا گھوڑے کو پکڑ لے اس سے مقابلہ کیا جائے۔یہاں تک کہ ہند کی دھرتی پر راجا رام چندر کی تنہا حکومت ہو“۔

دیوپور کے بارے میں اور آگے بہت تفصیل سے اس کتاب میں رام چندر جی کے بارے میں روشنی ڈالی ہے جس کی تفصیل میں مجھے نہیں جانا۔میں تو صرف دیوپور کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے یہ بتا رہی تھی کہ دیوپور ہزاروں سال سے ہندو ھرم کا خاص استھان رہا ہے اور آج بھی یہاں سکرانت پر ایک بہت بڑا میلہ بھرتا ہے اور سینکڑوں لوگ ایسی خطرناک سردی میں ڈبکی لگاتے ہیں۔آج ہمارے گھر والے بھی پوری تیاری کے ساتھ میلے میں اسنان کرنے جا رہے تھے۔میں سردی کے تصور سے ہی کانپ رہی تھی۔پتہ نہیں میرے گھر والے صبح صبح سے سردی میں اسنان کرنے جا رہے ہیں یہ بات انہیں کون سے بھگوان نے بتائی ہے؟؟اور کس کتاب میں لکھا ہے…؟ میں نے بھی بہت سی دھارمک (religious)کتابیں پڑھی ہیں۔مجھے تو کہیں لکھا ہوا نظر نہیں آیا کہ ایسی ٹھٹھرتی سردی میں ڈبکی لگائی جائے لیکن،سب کے ساتھ میں بھی دیو پور کے لیئے ساتھ ہو گئی۔دیوپور کے مندر اور کنڈ میں بھرا ہوا صاف شفاف پانی بہت خوبصورت نظارہ پیش کر رہا تھا۔سینکڑوں عورتیں آدمی ڈبکی لگا رہے تھے۔ایک میل کے ایریا میں دکانیں لگی ہوئی تھیں۔کھیل،کھلونے،مٹھائیاں اور پوجا پاٹھ کا سامان جگہ جگہ دکانوں پر سجے ہوئے تھے۔ڈُبکی لگانے کے تصور سے میں تو ایک طرف بھاگ لی۔سب گھر والوں نے اسنان کیا۔

میں دکانوں کی سجاوٹ دیکھتے دیکھتے بہت آگے نکل گئی۔قریب ہی جھاڑیوں میں میں نے دیکھا کہ ایک بچہ بے ہوش پڑا ہوا ہے جو میلے کی بھیڑ میں اپنی ماں سے بچھڑ کر شاید روتے روتے بے ہوش ہو گیا تھا۔میں نے اسے گود میں اُٹھا کر ہوش میں لانے کی کوشش کی تھوڑی دیر بعد جب اس نے آنکھیں کھولیں اور میں مندر میں پوجا کے لیئے جو بھی پرشاد لائی تھی وہ اسے کھلایا تو اس کی جان میں جان آئی لیکن،اس کی ماں کو تلاش کرنا اتنی بھیڑ میں میرے لیئے مشکل تھا۔میں اسے اپنے ساتھ لے جا کر مندر کے پوجاری کے پاس گئی اور مائک پر اس بچے کے گُم ہو جانے اور ماں سے بچھڑنے کا عیلان کرایا کہ جس کا بچہ گُم ہو گیا ہے وہ بچہ مندر کے پُجاری سے آکر لے جائیں۔تھوڑی دیر بعد ایک عورت چیختی ہوئی……”میرا بچہ….میرا بچہ“….کہتی ہوئی پجاری کے چرنوں میں گر پڑی کہ آپ کی بہت احسان مند ہوں کہ آپ نے میرا بچہ لوٹا دیا۔میں کئی گھنٹوں سے سارے میلے میں پاگلوں کی طرح اسے ڈھونڈھ رہی تھی۔

پجاری نے کہا،”دھنیواد آپ میرا نہیں…..اس لڑکی استوتی کا کریں جو پتہ نہیں اسے کہاں سے ڈھونڈھ کر لائی۔یہ کہیں بے ہوش پڑا ہو تھا۔اس عورت نے دونوں ہاتھ جوڑ کر جب میرا دھنیواد کہا تو مجھے ایسا محسوس ہوا کہ جیسے مندر میں آکر میرا اسنان اور میری پوجا صفل ہوئی اور جب م گھروالوں نے میرا نام مائک پر سنا تو وہ بھاگتے بھاگتے آئے اور ممی نے مجھ سے پوچھا،”سب نے اسنا ن کر لیا ہے تو تو کہاں گھوم رہی تھی“

اور اچانک سے پنڈت جی نے کہا،”جو کام اس لڑکی استوتی نے کیا ہے اس کے آگے آپ کا پوجا پاٹھ بھی کم ہے“۔اور میں نے جواب دیا ”ممی میں نے اس بچے کو اس کی ماں سے ملا دیا یہی میری اصلی پوجا ہے اور مجھے بے اختیار ندا فاضلی کا یہ شعر یا د آ گیا……….
گھر سے مسجد ہے بہت دور چلو کچھ یوں کر لیں
کسی روتے ہوئے بچے کو ہنسایا جائے

رابطہ: [email protected]

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں