ہم کالے ہیں تو کیا ہوا؟

ایک انصاف پسند شخص کیلئے فوجی سربراہ کا بیان بھی قابل سائش ہے اور ان سفید فام عوام کا اس مفہوم کے نعرے لکھے ہوئے پلے کارڈس لے کر مظاہروں میں شریک ہونا بھی کہ سفید فام عوام کا سکوت تشدد اور جبر کی حمایت یا تشدد کے مترادف ہے۔ اگر یہ جذبہ عام ہوجائے تو دنیا کے کسی بھی ملک میں اقلیتوں اور کمزور طبقوں پر مظالم نہ ڈھائے جائیں۔

ظلم کو ظلم اور غلط کو غلط کہہ کر اپنے ہی لوگوں کو کٹھرے میں کھڑا کرنا ایک ایسی سعادت ہے جو سب کو نصیب نہیں ہوتی اس لئے اپنوں ہی کے ہاتھوں نہ صرف اپنی حکومتیں تباہ ہوتی رہی ہیں بلکہ اداروں اور تحریکوں کے تباہ ہونے کیساتھ معاشرے بھی پن کا شکار ہوتے رہے ہیں۔ اپنے ہندوستانی معاشرے ہی کی مثال لیں تو یہ ثابت کرنے کی ضرورت نہیں رہتی کہ یہاں اس غلط کو صحیح کہا جاتا ہے جو اپنوں نے یا انہوں نے کیا ہو جن سے ہمارا مفاد وابستہ ہے۔

اسی طرح صحیح صرف ان کو تسلیم کیا جاتا ہے جو اپنے ہوں یا جن سے ہمارا مفاد وابستہ ہے۔ دھونس، دھمکی، اکثریت اور بدعنوانی سے غلط کام بھی کروالئے جاتے ہیں اور جو لوگ دھونس دھمکی کا سہارا نہیں لیتے وہ ہر طرح سے حق پر عمل پیرا ہونے کے باوجود معتوب ہوتے ہیں اور ان کو ملامت کرنے والوں میں وہ نورانی چہرے اور مقدس لباس والے بھی شامل ہوتے ہیں جنھیں حق گو اور حق بیں سمجھا جاتا ہے۔ مگر تاریکیوں سے روشنیوں کی نمود کرنے والا ہمارا رب ایسے مناظر بھی دکھاتا رہتا ہے جو ہمیں ہر حالت میں حق پر عمل پیرا ہونے کی تحریک عطا کرتے ہیں۔

چین، روس، ویتنام، ایران اور عرب ملکوں کے علاوہ خود یورپ کے عوام کی اکثریت کیلئے امریکہ ایک ناپسندیدہ ملک ہے مگر یہاں کے سیاہ فام عوام نے ڈونالڈ ٹرمپ انتظامیہ کی طرف سے برتی جانے والی تفریق اور کئے جانے والے مظالم کیخلاف تحریک شروع کرکے اور سفید فام عوام نے ان کی ہمنوائی کرکے ایک ایسی تاریخ مرتب کی ہے جس کی ستائش دنیا کے ہر انصاف پسند پر فرض ہے۔ جب ٹرمپ نے مظاہرین کو دھمکی دی تو امریکی فوج کے سربراہ نے ایک ایسا بیان دیا جس کا مطلب تھا کہ وہ امریکی صدر کو بچانے کیلئے امریکی عوام کو قتل نہیں کریں گے۔ یہ بیان بشمول ہندوستان دنیا کے تمام ملکوں کیلئے ایک مثال کی حیثیت رکھتا ہے۔

اس بیان میں جہاں یہ پیغام پوشیدہ ہے کہ فوج کا کام ملک کی حفاظت کرنا ہے کسی ایک فرد کے اقتدار کی حفاظت کرنا نہیں وہیں اس میں مظاہرین کیلئے بھی ایک پیغام ہے کہ وہ تمام سفید فام عوام اور ملک کے نظام کو اپنا دشمن نہ سمجھیں اور ایک سیاہ فام کے قتل یا ٹرمپ کے غیر دانشمندانہ بیان کے رد عمل میں کوئی ایسا اقدام نہ کریں جس سے امریکی معاشرے میں انتشار پیدا ہو۔ امریکہ نے چار پولیس والوں کو سزا دلانے کی کارروائی کا آغاز کرکے ثابت کردیا کہ وہاں قانون کی سالمیت کو قائم رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے قانون اہم ہے صدر کی خواہش نہیں۔ اس مثال میں ہم ہندوستانیوں کیلئے ایک سبق ہے جو روز یہ دیکھتے ہیں کہ پولیس اور حکمراں جماعت میں رسوخ رکھنے والا شخص قانون کا مذاق اڑاتا ہوا بہت کچھ کرلیتا ہے۔

ایک انصاف پسند شخص کیلئے فوجی سربراہ کا بیان بھی قابل سائش ہے اور ان سفید فام عوام کا اس مفہوم کے نعرے لکھے ہوئے پلے کارڈس لے کر مظاہروں میں شریک ہونا بھی کہ سفید فام عوام کا سکوت تشدد اور جبر کی حمایت یا تشدد کے مترادف ہے۔ اگر یہ جذبہ عام ہوجائے تو دنیا کے کسی بھی ملک میں اقلیتوں اور کمزور طبقوں پر مظالم نہ ڈھائے جائیں۔ گھر ہو یا معاشرہ ہر جگہ یہ دیکھنا کہ کمزوروں کے انسانی اور دستوری حقوق محفوظ رہیں حکومت کے علاوہ اکثریتی طبقے کی بھی ذمہ داری ہے۔ اکثریتی طبقہ ہم مذہب بھی ہوسکتا ہے اور دوسرے کسی مذہب کا ماننے والا بھی۔

امریکہ میں جس کا قتل ہوا وہ عیسائی تھا، جس نے قتل کیا وہ بھی عیسائی تھا اور جو سفید و سیاہ عوام احتجاج کررہے ہیں وہ بھی عیسائی ہیں۔ اگر حکومت و انتظامیہ اور احتجاج کرنیوالے الگ الگ مذہب سے تعلق رکھتے تو شاید مظاہروں اور ان کیخلاف ہونے والے رد عمل کی نوعیت کچھ اور ہوتی۔

مگر امریکہ کے ایک سیاہ فام شہری جارج فلائیڈ کا ایک پولیس کے ذریعہ قتل کیا جانا صرف سیاہ فام عوام پر امریکی پولیس کا ظلم نہیں سمجھا جارہا ہے بلکہ اس کو سیاہ فام اور سفید فام عوام کے درمیان برتی جانے والی اس صدیوں پرانی تفریق سے تعبیر کیا جارہا ہے جو بارک اوبامہ کے صدر بننے کے بعد بھی ختم نہیں ہوئی ہے۔ اچھی بات صرف یہ ہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ کے ناعاقبت اندیشانہ بیان کے باوجود افریقہ، یورپ اور خود امریکہ کے عوام کی ایک بہت بڑی تعداد سیاہ فام عوام سے ہمدردی کا اظہار کررہی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انصاف دلانے کے نام پر ساری دنیا میں پولیس کا کردار ادا کرنے والے امریکہ میں انتظامیہ کتنا ظالمانہ کردار ادا کررہی ہے۔

امریکہ کے سیاہ فام غلاموں کی اولاد ہیں جنہیں خرید کر یا قبضے میں لے کر امریکہ لایا گیا تھا وہ یہاں ایک عرصے تک غلام سمجھے جاتے رہے۔ ابراہیم لنکن نے غلامی کا خاتمہ کردیا تھا اس کے باوجود ساٹھ کے دہے کے درمیان تک سیاہ فام عوام کیخلاف تعصب و تفریق کو کسی حد تک قانونی حیثیت حاصل تھی۔ کئی تحریکیں چلیں حکومت نے کئی بار یقین دہانی کی مگر سیاہ فام عوام کیخلاف کسی نہ کسی شکل میں تفریق برتی جاتی رہی۔

یہ صحیح ہے کہ امریکہ میں سیاہ فام عوام کی حالت ہندوستان کے دلتوں سے بہتر ہے اس کے باوجود ان کیخلاف کی جانے والی نسلی تفریق سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ اس بنیاد پر یہاں فسادات بھی ہوتے رہے ہیں۔ دولت کے ذرائع اور معیشت پر تو سفید فام عوام کا ہی قبضہ ہے۔ بڑی بڑی کمپنیاں تسلسل سے یہ اعلان کرتی رہتی ہیں کہ انہوں نے اتنے سیاہ فام لوگوں کو ملازمت دی یا معاشی طور پر مستحکم ہونے میں مدد دی۔ مگر یہ سب شاید اس لئے ہوتا ہے کہ سیاہ فام اور کمزور طبقات سے تعلق رکھنے والے عوام آپے سے باہر نہ ہوں۔

امریکہ کے حالیہ واقعات بظاہر اس لئے رونما ہوئے ہیں کہ ایک سیاہ فام شخص کو پولیس نے قتل کیا تھا مگر اصل معاملہ یہ ہے کہ امریکی معاشرے میں سیاہ اور سفید عوام کی نفسیات اتنی مختلف ہے اور سفید فام طبقے میں سیاہ فام عوام کیلئے اس درجہ نفرت ہے کہ وہ اکثر چھلک جاتی ہے۔ سیاہ فام عوام یہ کہتے ہوئے سڑکوں پر اتر آتے ہیں کہ ’’ ہم کالے ہیں تو کیا ہوا انسان ہیں اور ہمارے بھی حقوق ہیں۔ ‘‘

ہندوستان میں خاص طور سے ہندوستانی مسلمانوں میں جو مظلوم ہیں ان کے ذہنوں پر ایسے لوگ چھائے ہوئے ہیں جو سیاہ فام تو نہیں ہیں مگر جن کے دل سیاہ ہیں۔ مسلمانوں کا کئی معاملات میں عدلیہ میں بھی پسپا ہونا اس لئے ممکن ہوا کہ ان کے درمیان موجود ایسے لوگوں نے بہت غلط کردار ادا کیا جن کے چہرے بہت روشن، گفتگو بہت مجاہدانہ مگر دل نفاق سے بھرے ہوئے تھے۔ یہ سیاہ دل ’’مجاہدین‘‘ قومی سطح پر ملی بقا کی لڑائی تو کیا لڑیں گے اپنے اداروں اور اداروں کے علمی ادبی اثاثوں کو بھی تباہ ہوتے دیکھ کر چپ ہیں۔ امریکہ میں سیاہ فام عوام کی تحریک دنیا بھر کے محرومین کے لئے مینارئہ نور ہے اس سے سبق لینے کی ضرورت ہے۔(انقلاب)

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں