نئی دہلی، حال ہی منظور شدہ وقف ترمیمی قانون کو غیر آئینی اور غیر جمہوری قرار دیتے ہوئے آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے جنرل سکریٹری مولانا فضل الرحیم مجددی نے کہاکہ یہ ایکٹ غیر قانونی، غیر آئینی، غیر جمہوری اور سیکولرزم کے خلاف ہے،یہ ایکٹ دستور میں دئے گئے بنیادی حقوق کے خلاف ہے ۔ یہ بات انہوں نے مہاراشٹر کے پربھنی میں وقف ترمیمی قانون کے خلاف منعقدہ ایک بڑے احتجاجی جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔
انہوں نے کہاکہ ہمارا ملک ایک جمہوری ملک ہے،بلکہ ہمارے ملک عزیز کو جمہوریت کی ماں کہا جاتا ہے،یاد رہے کہ جمہوریت میں جہاں حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ ملک کی عوام خصوصا اقلیتوں، دلتوں، آدیواسیوں، خواتین، بچوں اور سماج کے کمزور طبقات کی آزادی اور ان کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنائے اور اکثریت پسندی کی راہ پر چل کرتاناشاہ بننے سے بچے، وہیں جمہوریت میں ہر شہری کی ذمہ داری صرف اور صرف الیکشن میں ووٹ ڈالنا نہیں ہے، بلکہ ایک زندہ اور مظبوط جمہوریت کی نشانی یہ ہے کہ وہاں کی عوام اپنے حقوق کی تئیں بیدار ہو، جب حکومت کی طرف سے اس کی آزادی اور اس کے آئینی حقوق کو چھیننے کی کوشش کی جائے تو وہ اپنے احتجاج اور قانونی و جمہوری لڑائی سے حکومت کو آئین کی پاسداری کرنے پر مجبور کر دے، یاد رہے کہ حقوق اور آزادی صرف اسی کے چھینی جاتی ہیں جو غفلت کی چادر اوڑھے خواب خرگوش میں پڑا رہے، ہم سب کو اپنے حقوق کے سلسلہ میں بیداری پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہاکہ ہر ایک ہندوستانی کو یہ بات سمجھانا ہے کہ وقف ترمیمی ایکٹ ۵۲۰۲ دستور ہند کے آرٹیکل ۳۱، آرٹیکل۴۱،آرٹیکل ۵۱،آرٹیکل ۵۲، آرٹیکل ۶۲ اور آرٹیکل ۰۳ کے خلاف ہے، یہ ایکٹ غیر قانونی، غیر آئینی، غیر جمہوری اور سیکولرزم کے خلاف ہے،یہ ایکٹ دستور میں دئے گئے بنیادی حقوق کے خلاف ہے، یہ ایکٹ ہماری مذہبی آزادی کے خلاف ہے، یہ ایکٹ مسلمانوں کو ان کے مذہب سے الگ کرتاہے، یہ ایکٹ مسلمانوں سے ان کی مسجد،مدرسہ، قبرستان، خانقاہ اور درگاہ کو چھیننے کی راہ ہموار کرتا ہے، اس ایکٹ کا نام حکومت نے امید رکھا ہے لیکن یہ ایکٹ صرف و صرف ہندوستانی عوام میں نا امیدی پیدا کرنے والا ہے، یہ ایکٹ اس ملک کے شہریوں میں مذہب کی بنیاد پر تفریق کرتاہے،یہ ایکٹ جب بل تھا تب بھی ہم نے مخالفت کی تھی، جب یہ پارلیمنٹ میں پیش ہوا تب بھی مسلمانوں نے اس کی مخالفت کی اور آج جب یہ قانون بن گیا تب بھی ہم اس قانون کے خلاف ہیں، یہ ایکٹ نہ ہمیں کل منظور تھا نہ آج ہے نہ کل ہوگا، جب تک یہ قانون واپس نہیں ہوجاتا ہم اس قانون کی مخالفت کرتے رہیں گے،پارلیمنٹ سے پاس جو بھی قانون ہمارے دستوری حق کو چھینتا ہو، جو ہماری آزادی کو کم کرتا ہو اس کی مخالفت کرنے کا حق ہمیں ہمارا دستور دیتا ہے، ایسے غیر قانونی، غیر آئینی ایکٹ کی مخالفت ملک سے غداری نہیں بلکہ ملک کی جمہوریت کو مظبوط کرنے والی ہوتی ہے، جمہوریت میں آئین کے تحفظ کی ذمہ داری حکومت کے ساتھ ساتھ عوام کی بھی ہوتی ہے اورہم انشاء اللہ اپنی آئینی اور جمہوری ذمہ داری پوری قوت و طاقت کے ساتھ نبھائیں گے،ہم لڑیں گے اور جیتیں گے(
مولانا مجددی نے کہاکہ ہماری یہ لڑائی کسی دھر م اورقوم کے خلاف نہیں ہے، ہماری یہ لڑائی ظلم کے خلاف انصاف کی لڑائی ہے،ہماری یہ لڑائی جمہوریت اور سیکولرزم کے تحفظ کی لڑائی ہے،ہماری یہ لڑائی ہماری مذہبی آزادی کی لڑائی ہے،ہماری یہ لڑائی مدارس، مساجد اور قبرستانوں کے حفاظت کی لڑائی ہے، ہمیں یہ لڑائی صبر و استقامت کے ساتھ دیر تک اور دور تک لڑنی ہے، اس لڑائی میں سب سے زیادہ جس بات کی ضرورت ہے وہ ہے اتحاد اور استقامت،اگر ہم اپنی صفوں میں اتحاد قائم رکھنے میں کامیاب رہے اور اس ظالمانہ کالے قانون کی واپسی تک ثابت قدم رہے تو انشاء اللہ جت ہماری ہوگی، یاد رکھنا اتحاد زندگی ہے اور انتشار موت ہے، ہمیں اپنی صفوں میں انتشار پیدا کرنے والوں کی پہچان کر نی ہوگی، ایسے لوگوں کو اپنی صفوں سے باہر نکالنا ہوگا، اور یاد رہے ہماری یہ جنگ کوئی جذباتی جنگ نہیں ہے، ہمیں اپنی اس لڑائی میں صبر اور استقامت کے ساتھ دیر تک لڑنے کے لئے خود کو تیار رکھنا ہوگاورنہ ہماری آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی، اگر ہم مظبوطی سے لڑتے رہے تو یاد رکھو ظلم کی تاریکی زیادہ دیر تک نہیں ٹکتی، انصاف کا سورج ضرور نکلے گا بس شرط ہے اتحاد اور استقامت کی۔
وقف ایکٹ ۵۲۰۲کی ۲/ دفعات پر سپریم کورٹ نے عبوری راحت دیتے ہوئے وقتی طور پر پابندی لگا دی ہے، یہ عبوری راحت خوش آئند تو ہے لیکن ہمیں اس پر مطمئن نہیں ہونا ہے،کیونکہ وقف بائی یوزر کی منسوخی اورغیر مسلم ممبران کی تقرری پر عبور ی پابندی لگی ہے لیکن وقف کی جائدادوں پر لمیٹیشن ایکٹ کا نفاذ اب بھی باقی ہے، جس سے وقف پر ناجائز قبضہ کرنے والوں کو قانونی طور پر مالکانہ حق مل جائے گا، وقف کرنے کے لئے پانچ سال قدیم با عمل مسلمان ہونے کی شرط اب بھی باقی ہے، جس کا مطلب ہے آپ گرچہ پیدائشی مسلم ہیں لیکن مسجد یا مدرسہ کے لئے زمین وقف کرنے سے پہلے آپ کو ثابت کرنا ہوگا کہ آپ دیندار با عمل مسلم ہیں ورنہ وقف صحیح نہیں ہوگا،اے ایس آئی یعنی آثار قدیمہ کے تحت محفوط جائداد وقف نہیں رہیں گی یعنی مسلمان اپنی تمام تاریخی مسجدوں سے ہاتھ دھو بیٹھے گا، یہ دفعہ تو پارلیمنٹ سے پاس عبادت گاہ قانون ٰایکٹ کے خلاف ہے، متھرا کی عیدگاہ ہو یا بنارس کی گیان واپی مسجد اب کوئی وقف نہیں رہے گی، وقف علی الاولاد کو ختم کرنے کی دفعہ پر ابھی بھی کوئی پابندی نہیں ہے، میں کہتا ہوں کہ یہ وقف ایکٹ ۵۲۰۲ کلی طور پر غیر آئینی غیر دستوری، ظالمانہ ہے، ہمیں اس قانون کے کلی طور پر واپسی تک اپنے احتجاج جاری رکھنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ دعوی جھوٹ ہے،صرف چار ریاستوں آندھرا، تلنگانہ، کرناٹک اور تملناڈ کے مندروں کی جائدا د پورے ملک کے اوقاف کی جائداد سے کہیں زیادہ ہے، لوگوں کو بتانا ہے کہ صرف لیکن یاد رکھیں جو اس ایکٹ کے حق میں ہے وہ ظالم کا حامی ہے، وہ دستور کا مخالف ہے،وہ مسلم قوم کا میر جعفر ہے،میری اپیل ہے کہ آپ سب عہد کریں کہ ہم آخر دم تک لڑیں گے اور جیتیں گے۔
یو این آئی۔ ع ا۔