خبراردو: غریب، کسان اورگائوں کیلئے سوغات، تنخواہ یافتگان مایوس، امراء پر ٹیکس کا اضافہ
مرکزی وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن نے جمعہ کو پارلیمنٹ میں مودی حکومت کی دوسری مدت کار کا پہلا بجٹ پیش کیا۔ سنہ 2019۔20 کے بجٹ میں ملک کی ترقی کو دوبارہ پٹری پر لانے اور 2025 تک پچاس کھرب ڈالر کی معیشت بنانے کے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے بڑے پیمانے پرسرمایہ کاری معبنیادی ڈھانچہ اور فلاحی کاموں کے لیے وسائل اکٹھا کرنے کی غرض سے پٹرول اور ڈیزل پر دو دو روپیے فی لیٹر ٹیکس بڑھایا گیا ہے۔ مودی حکومت نے بجٹ میں غریب ، کسان، دیہی علاقوں کو سوغات دی ہے اور سست روی کی شکار معیشت کو رفتار دینے کے لیے گھریلو اور غیر ملکی سرمایہ کاری بڑھانے کا اعلان کیا ہے۔ امید کے برعکس درمیانی انکم ٹیکس دینے والوں کو کوئی راحت نہیں دی گئی ہے جبکہ امیروں پر ٹیکس کا اضافہ کیا ہے۔ بجٹ میں گاوئوں، غریب، کسان کی زندگی کے معیار کو بلند کرنے کے لیے کئی اعلانات کیے گئے ہیں جبکہ مڈل کلاس کے تنخواہ لینیوالوں کو کسی طرح کی رعایت نہ ملنے سے کافی مایوسی ہوئی ہے۔ البتہ امراء پر ٹیکس کا اضافہ کیا گیا ہے۔ دو کروڑ روپیے سے زیادہ اور پانچ کروڑ روپیے تک کی آمدنی والوں کے لیے اضافی 15 فیصدسے بڑھا کر 25 فیصد ٹیکس کیا گیا ہے لہٰذا اب انھیں تین فیصد زیادہ ٹیکس دینا ہوگا۔ پانچ کروڑ روپیے سے زیادہ کا ٹیکس مستطیع آمدن والوں کے لیے اضافی طور پر 37 فیصد کیا گیا ہے۔ اس سے انھیں سات فیصد زیادہ ٹیکس دینا ہوگا۔پینتالیس لاکھ روپیے تک مکان خریدنے والوں کو رہائشی قرض کی سود پر انکم ٹیکس میں دی جانے والی چھوٹ کی حد بھی بڑھا دی گئی ہے۔ آئندہ 31 مارچ تک مکان خریدنے والوں کو 1.5 لاکھ روپیے تک کی اضافی انکم ٹیکس چھوٹ کا اعلان کیا گیا ہے۔ اس طرح سے مکانوں کے لیے دو لاکھ روپیے تک کے انکم ٹیکس چھوٹ کا انتظام کیا گیا ہے۔پٹرول اور دیزل پر ایک ایک روپیے فی لیٹر پروڈکشن ٹیکس بڑھانے کے ساتھ ہی اتنی ہی رقم کی ترقی مع انفراسٹرکچر کی مد میں اضافے کا اعلان کیا ہے۔ اس سے دونوں ایندھن کی قیمت ہفتے کے روز سے دو دو روپیے فی لیٹر مہنگی ہو جائے گی۔ ڈیزل کے مہنگا ہونے سے آنے والے دنوں میں دیگر اشیا کی قیمتوں پر بھی اثر پڑسکتا ہے۔بجٹ میں سونا، چاندی اور زیورات پر کسٹم کو 10 فیصد سے بڑھا کر 12.5 فیصد اور کاجو پر 45 سے بڑھ کر 75 فیصد کرنے سے ان کی قیمتوں پر بھی اثر پڑے گا۔ امپورٹ (درآمد شدہ) کتابوں پر صفر سے بڑھا کر 5 فیصد اور آپٹیکل فائبر کیبل پر صفر سے 20 فیصد کرنے کی وجہ سے یہ مزیدمہنگے ہو جائیں گے۔گاڑی کے پرزوں پر 10 فیصد کے ٹیکس میں اضافہ کرکے 15 فیصد اور ٹائلس پر بھی 10 سے 15 فیصد کا اضافہ کیا گیا ہے۔ ایئرکنڈیشن، لاوئوڈ اسپیکر، ویڈیو ریکارڈر، سی سی ٹی وی کیمرہ، گاڑی کے ہارن، تمباکو، سگریٹ اور موبائل کے پارٹس پر ٹیکس میں اضافے کی وجہ قیمت بڑھے گی۔اس کے علاوہ ڈیجیٹل کیمرہ، مکمل درآمداتی کار، صابن بنانے کے کام میں آنے والی خام اشیا، درآمداتی اسٹین لیس اسٹیل پیدوار، نیوزپرنٹ اور موبائل فون چارجر وغیرہ بھی مہنگے ہوجائیں گے۔نقد لین دین کو کم کرنے کے لیے بینک کھاتے سے ایک کروڑ روپیے سے زیادہ نکالنے والوں کو بھی جیب ڈھیلی کرنی پڑے گی۔ ایک کروڑ روپیے بینک سے نکالنے پراب دو فیصد کٹے گا۔ماحولیات کو صاف و شفاف بنانے کے لیے الیکٹرک کار کے استعمال کو بڑھاوا دینے کی سمت میں اس کے آلات کی خریداری پر رعایت دینے کا اعلان کیا گیا ہے۔
الیکٹرک گاڑیوں کے علاوہ الیکٹرانک اشیا، سیٹ اپ باکس اور دفاع کا درآمداتی سامان بھی سستا ہوگا۔نرملاسیتا رمن نے آئندہ دہائی کے لیے 10 نکاتی وڑن کا اعلان کیا جس میں عوامی حصہ داری، آلودگی سے پاک ہندوستان، معیشت کے ہر شعبے میں ڈیجیٹل انڈیا کی رسائی،بنیادی اور سماجی انفراسٹرکچر کی تعمیر،آبی وسائل اور ندیوں کی صفائی ،خود انحصاری، میک ان انڈیا، اشیائے خوردنی، دال، تلہن، پھل، سبزی کے ایکسپورٹ (برآمد) کو فروغ اور آیوشمان بھارت کے ذریعے صحت مند سماج کی تعمیر شامل ہیں۔گھریلو سطح پر مینوفیکچرنگ کے شعبے کو فروغ دینے کے لیے درمیانی،چھوٹی اور انتہائی چھوٹی صنعتوں پر زور دینے کے علاوہ اسٹارٹ اپ، دفاعی آلات کو ملک میں بنانا، آٹو موبائل، الیکٹرانکس اور صحت کے (طبی) آلات کے شعبے میں میک ان انڈیا کی رسائی کو فروغ دینے پر زور دیا گیا ہے۔اقلیتی امور کی وزارت کے لئے اس سال بجٹ میں 4599کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں جو 19-2018 کی مختص رقم سے زیادہ ہے۔اسی کے ساتھ عام بجٹ میں اقلیتوں کو تعلیمی طور پر بااختیار بنانے کے لئے مختص رقم میں تھوڑی کمی کے ساتھ حکومت نے یو پی ایس سی کے امتحانات میں شریک ہونے والے اقلیتی امیدواروں کیلئے مختص بجٹ میں اضافہ کیا ہے۔ اقلیتوں کو تعلیمی طور پر بااختیار بنانے کیلئے مختص رقم پچھلے سال کے 2451 کروڑ روپے سے گھٹا کر 2362 کردی گئی ہے۔ پری میٹرک اور پوسٹ میٹرک گرانٹ کی رقم بالترتیب 1296 کروڑ روپے سے گھٹا کر 1220 کروڑ روپے اور 500 کروڑ روپے سے کم کرکے 496 کروڑ روپے کردی گئی ہے۔ اقلیتی امیدواروں کو مفت اور رعایات والی کوچنگ فراہم کرنے کے لئے بجٹ 8 کروڑ روپے سے بڑھاکر 20 کروڑ روپے کردیئے گئے ہیں ۔ یہ سہولت یو پی ایس سی ، ایس ایس سی وغیرہ کے ابتدائی امتحانات پاس کرنے والے طالب علموں کی مدد والی اسکیم کے تحت فراہم کی جاتی ہے۔ وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن نے جمعہ کو پارلیمنٹ میں بجٹ کی تقریر میں کہا کہ ایک روپے، دو روپے، پانچ روپے، دس روپے اور بیس روپے کے سکوں کی ایک نئی سیریز جاری کی گئی ہے۔ ان سکوں کو نابیناافراد بھی آسانی سے پہچان سکتے ہیں۔یہ نئے سکے عوام کے استعمال کے لئے جلد ہی دستیاب ہو جائیں گے۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے گزشتہ سات مارچ کو ان سکوں کی نئی سیریز کو جاری کیا تھا۔پہلا موقع ہوگا جب بازارمیں بیس روپے کا سکا استعمال میں آئے گا۔حکومت نے اپنے شہریوں کے طرز زندگی میں مزید آسانی لانے کا نشانہ طے کیا ہے۔
حکومت کے ساتھ ساتھ دیگر جگہوں پر بھی رقوم کے ڈیجیٹل لین دین میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔طرز زندگی کو آسانے بنانے کی یقین دہانی کے لئے ٹیکنالوجی کا استعمال ایک مؤثر طریقہ ہے۔ یہ بات خزانہ اور کارپوریٹ امور کی مرکزی وزیر محترمہ نرملا سیتا رمن نے آج پارلیمنٹ میں مرکزی بجٹ 20-2019 پیش کرتے ہوئے کہی۔وزیر مالیات نے کہا کہ تقریباً 30لاکھ کارکنوں نے پردھان منتری شرم یوگی مان دھن میں شرکت کی ہے۔ اس اسکیم کا مقصد غیر منظم اور باقاعدہ شعبوں میں 60 سال کی عمر پر پہنچ جانے والے کروڑوں کارکنوں کو پنشن کے طورپر 3000روپے ماہانہ فراہم کرنا ہے۔وزیر خزانہ نے کہا کہ اونچے معیار زندگی اور آسان زندگی کے لئے ایک صاف ستھرے ماحول کو برقرار رکھنا اور دیر پا توانائی کی یقین دہانی ضروری ہے۔انہوں نے کہا‘‘گھروں کی سطح پر ایل ای ڈی بلب بڑے پیمانے پر تقسیم کئے جانے کا ایک عوامی پروگرام شروع کیاگیا تھا، جس کے نتیجے میں ملک میں روایتی بلب اور سی ایف ایل بدلے گئے تھے۔تقریباً35کروڑ ایل ای ڈی بلب اجالا یوجنا کے تحت تقسیم کئے گئے، جس کے نتیجے میں 18341کروڑ روپے سالانہ کی بچت ہوئی۔ بھارت روایتی بلب کے استعمال سے آزادہونے والا ہے اور سی ایف ایل کا استعمال اب بہت ہی کم رہ گیا ہے۔ ہم ملک میں شمسی چولہوں اور بیٹری چارجر کے استعمال کے فروغ کے لئے مشن ایل ای ڈی بلب طریقہ کار اپنائیں گے۔وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن نے کہا کہ حکومت اس سال ریلوے اسٹیشن کو جدید طرز پر ڈھالنے کے ایک بڑے پروگرام کا آغاز کرے گی، تاکہ ریل کے سفر کو عام شہریوں کے لئے خوشگوار اور اطمینان بخش بنایاجاسکے۔خزانے اور کارپوریٹ امور کی مرکزی وزیر نے کہا کہ پردھان منتری آواس یوجنا –گرامین(پی ایم اے وائی-جی) کا مقصد 2022ء تک سب کے لئے ہاؤسنگ کا نشانہ حاصل کرنا ہے۔پردھان منتری گرام سڑک یوجنا(پی ایم جی ایس وائی)کے بارے میں وزیر خزانہ نے کہا ‘‘پی ایم جی ایس وائی-III)میں اگلے پانچ سال میں 125ہزار کلومیٹر طویل سڑک کو بہتر بنایا جائے گا، جس پر تقریباً 80250کروڑ روپے کی لاگت آئے گی۔’’ انہوں نے کہا کہ اہل آبادی کے ساتھ آفاقی کنکٹی ویٹی کے نشانے کو حاصل کرنے کی رفتار میں تیزی لانے کے لئے تکمیل کا نشانہ 2022ء سے 2019ء کردیا گیا ہے۔تعلیم کے شعبے میں ’’عالمی معیار کے ادارے‘‘ قائم کرنے کے لئے مالی برس 2019-20 کے دوران 400 کروڑ روپے کی رقم مہیا کرائی گئی ہے، جو کہ گزشتہ مالی برس کے ترمیم شدہ تخمینے سے تین گنا زیادہ ہے۔ وزیر خزانہ نے یقین دلایا کہ حکومت ہندوستان کے اعلیٰ تعلیمی نظام کو عالمی سطح پر تعلیم کے بہترین نظام میں سے ایک نظام بنانے کے لئے نئی قومی تعلیمی پالیسی بھی لے کر آئے گی۔ اس نئی قومی پالیسی سے دیگر چیزوں کے علاوہ اسکول اور اعلیٰ تعلیم دونوں سطح پر بڑی تبدیلی آنے کا امکان ہے۔ علاوہ ازیں اس سے نظم و نسق کے بہتر نظام اور تحقیق و اختراع پر بڑے پیمانے پر توجہ مرکوز ہوگی۔
نرملا سیتا رمن نے ’اسٹڈی ان انڈیا‘ یعنی ہندوستان میں پڑھائی کرو پروگرام کا بھی اعلان کیا۔ اس پروگرام کی توجہ ہمارے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے بیرونی ملکوں کے طالب علموں کو لانے پر مرکوز رہے گی۔مرکزی وزیر مالیات نے مرکزی بجٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ حکومت 10فیصد تک کے پہلے خسارہ کے لئے سرکاری سیکٹر کے بینکوں کو ایک بار 6 ماہ کی جزوی قرض گارنٹی فراہم کرے گی۔انہوں نے این بی ایف سی کے مقابلے آر بی آئی کی ریگولیٹری اتھارٹی کو مستحکم کرنے کے لئے فائنانس بل میں مناسب تجاویزپیش کیں۔ قرض کو فروغ دینے کے لئے سرکاری سیکٹر کے بینکوں کو 70000 کروڑ روپے کا سرمایہ فراہم کیا جارہا ہے، تاکہ ملک کی معیشت کو مزید رفتار دی جاسکے۔ ملک میں آسان زندگی کو مزید بہتر بنانے کے لئے یہ سرکاری سیکٹر کے بینک ٹیکنالوجی کو مستحکم کریں گے، آن لائن پرسنل لون اور گھر پر بینکوں کی خدمات کی پیشکش کریں گے اور ایک سرکاری سیکٹر کے بینک کے صارف کو دیگر تمام سرکاری سیکٹر کے بینکوں میں خدمات تک رسائی حاصل کرنے کے قابل بنائیں گے۔ خزانہ اور کارپوریٹ کی مرکزی وزیر محترمہ سیتا رمن نے پارلیمنٹ میں مرکزی بجٹ 2019-20 پیش کرتے ہوئے اطلاع دی کہ اس کے مستزاد اکاؤنٹ ہولڈر کو اس کے موجودہ حالات سے باہر نکالنے کے لئے حکومت متعدد اقدامات کرے گی۔ ان حالات میں اکاؤنٹ ہولڈر کو اپنے اکاؤنٹ میں دوسرے کے ذریعہ جمع کردہ نقدی پر اختیار حاصل نہیں ہوتا ہے۔
سرکاری سیکٹر کے بینکوں میں گورنینس کو مستحکم کرنے کے لئے مزید اصلاحات کئے جائیں گے۔بینکنگ نظام کو صاف ستھرا کرنے سے حاصل ہونے والے مالی فوائد اب بالکل عیاں طور پر نظر آرہے ہیں۔ گزشتہ برس کے دوران تجارتی بینکوں کے غیرمنفعت بخش اثاثے (این پی اے) میں ایک لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ کی کمی آئی ہے۔ گزشتہ چار برسوں کے دوران آئی بی سی اور دیگر اقدامات کے سبب 4 لاکھ کروڑ روپے سے زائد رقومات کی ریکارڈ وصولی ہوئی ہے۔ سات برسوں میں کوریج تناسب سب سے زیادہ ہے اور گھریلو قرض کی شرح ترقی 13.8 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ سیتا رمن نے مزید اطلاع دی کہ حکومت نے سرکاری سیکٹر کے بینکوں کو مستحکم کرنے کے علاوہ اس کی تعداد میں کمی کی ہے۔ اس کے علاوہ 6 سرکاری سیکٹر کے بینکوں کو فوری سدھار ایکشن فریم ورک سے باہر آنے کے قابل بنایا ہے۔وزیر خزانہ نے اطلاع دی کہ نان بینکنگ فائنانشیل کمپنیز (این بی ایف سی) چھوٹے اور اوسط درجے کے صنعت میں پائیدار صرفے کی مانگ اور سرمایہ کی تشکیل میں اہم رول ادا کررہے ہیں۔ این بی ایف سی جو کہ بنیادی طور پر بہتر ہوتے ہیں، کو بینکوں اور میچول فنڈ سے بغیر کسی خطرے کے فنڈ حاصل ہوتے رہنا چاہئے۔ انہو ں نے کہا کہ اعلیٰ قیمت کے سرمایہ کی خریداری کے لئے مالی طور پر مضبوط نان بینکنگ فائنانشیل کمپنیز، موجودہ مالی برس کے دوران کل ایک لاکھ کروڑ روپے تک کی کمپنیز کے لئے حکومت سرکاری سیکٹر کے بینکوں کو 10 فیصد تک کے خسارہ کے لئے ایک بار چھ مہینے کی جزوی قرض فراہم کرے گی۔ مزید برآں ریزرو بینک آف انڈیا (آر بی آئی) این بی ایف سی کے لئے ریگولیٹر ہے، تاہم آر بی آئی کے پاس این بی ایف سی کے اوپر محدود ریگولیٹری اتھارٹی ہے۔ این بی ایف سی پر آر بی آئی کی ریگولیٹری اتھارٹی کو مستحکم کرنے کے لئے مناسب تجاویزفائنانس بل میں دیے جارہے ہیں۔
(بشکریہ یو این آئی)