کئی ریاستوں میں مسجدیں کھول دی گئیں، نمازوں کا باجماعت اہتمام

دہلی، بہار، یو پی، کرناٹک، تلنگانہ اور دیگر ریاستوں میں عبادتگاہوں کے کھلنے سے عوام نے راحت کا سانس لیا،مسجدوں میں نماز کے دوران مصلیان کے درمیان دوری کامکمل اہتمام، کہیں۱۰۰؍ سے زائدنمازی پہنچے توکہیں ۱۰؍ سے ۱۵؍ افراد نے ہی باجماعت نماز ادا کی ، گوا، تمل ناڈو اور راجستھان میں شاپنگ مالس، ہوٹل ،نجی اور سرکاری دفاتر کھل گئے مگر عباتگاہیں نہیں کھولی گئیں

ملک میں کورونا وائرس کے قہر کے بیچ اس وبا کے ساتھ معمول کی زندگی جینے کی جانب پہلا قدم بڑھاتے ہوئے دہلی یوپی، بہار، کرناٹک، تلنگانہ اور دیگر چند ریاستوں نے پیر کو ’ان لاک ڈاؤن-۱‘ کے تحت شاپنگ مالس، ہوٹل، ریسٹورنٹ، نجی اور سرکاری دفاترنیز عبادتگاہوں کو کھول دیا۔ اس کے ساتھ ہی ۷۵؍ دنوں بعد ان ریاستوں میں مسجد میں باجماعت نمازیں ادا کی گئیں۔ کچھ علاقوں میں چونکہ عبادتگاہوں میں بیک وقت موجود رہنے والے افراد کی تعداد محدود کردی گئی ہے اس لئے کہیں کم وبیش ۱۰۰؍ افراد نے باجماعت نماز ادا کی تو کہیں یہ تعداد ۱۰؍ سے ۱۵؍ ہی رہی۔ گوا، راجستھان ،تمل ناڈو اور اروناچل جیسی ریاستوں نے ’ان لاک ڈاؤن-۱‘ کو جزوی طور پر نافذ کیااور عبادت گاہوں کو ابھی نہیں کھولا ہے۔

احتیاطی تدابیر کا مکمل خیال رکھاگیا
لاک ڈاؤن کے دوران مسجدوں کو کھو لنے سے قبل انہیں دھویاگیا اور کئی جگہوں پر سینی ٹائز کیاگیا ۔ نیز نمازیوں کیلئے بھی تمام احتیاطی تدابیر کو لازمی قرار دیاگیا۔ مصلیان وضو گھر سے کرکے آئے ، اپنے ساتھ جائے نماز لے کر آئے اور اکثر نے ہینڈ سینی ٹائزر ساتھ رکھاتھا۔ کچھ مساجد کے صدری دروازے پر ہینڈ سینی ٹائزر کی بوتلیں رکھی گئی تھیں اور حرارت ناپنے کا نظم تھا۔ واضح رہے کہ عبادتگاہیں کھول تو دی گئی ہیں مگر ایک وقت میں عقیدت مندوں کی ایک محدود تعداد کو ہی داخل ہونے کی اجازت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسجدیں کھلنے سے مسلمانوں میں زبردست جوش وخروش کے باوجود ویسی بھیڑ نظر نہیں آئی جیسی ہوسکتی تھی۔
جامع مسجد میں ۲۰۰؍ مصلیان پہنچے

دہلی کی شاہی جامع مسجد میں نمازیوں کے لیے خصوصی انتظامات کئے گئے تھے ۔ مسجد کے گیٹ نمبر ایک عبداللہ باب پر پولیس تعینات کی گئی تھی اور ہر نمازی کامشین سے ٹیسٹ کیا جا رہا تھا۔ ٹیسٹ کے بعد ایک فاصلہ کے ساتھ ہی نمازیوں کو مسجد کے اندر جانے کی اجازت دی گئی۔ ظہر کی نماز میں بڑی تعداد میں نمازی شاہی مسجد پہنچے ۔ ۷۵؍ دنوںکے بعد یہ پہلی باجماعت نماز تھی اس لیے میڈیا بھی کافی جمع تھا چنانچہ احتیاط کے طور پر شاہی امام سید احمد بخاری اور نائب شاہی امام سید شعبان بخاری جماعت سے نماز پڑھنے کیلئے نہیں آئے۔انھو ں نے گھر پر ہی نماز ادا کی ۔

واضح رہے کہ شاہی امام بند کے دوران بھی اپنے اہل خانہ اور ملازمین کے ساتھ شاہی جامع مسجد میں ہی نماز ادا کرتے رہے ہیں۔ پیر کو شاہی جامع مسجد کے مفسر قرآن مفتی محمد اویس خان کی اقتدا میں نماز ظہر اور نماز عصر ادا کی گئی۔یہاں ظہر کے وقت ایک اندازے کے مطابق ۲۰۰؍ افراد نے آپس میں فاصلہ برقرار کھتے ہوئے نماز ادا کی۔چونکہ مصلیان کو گھر سے وضو کرکے آنے کیلئے کہاگیاتھا اس لئے جامع مسجد کے حوض کو خالی کردیاگیاتھا۔

احتیاط اور ہدایات پر عمل کی اپیل
جمعیۃعلماء ہند کے صدرمولانا سید ارشدمدنی نے کہا ہے کہ مسلمان اپنی اپنی صوبائی حکومتوں کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے وزارت صحت کی گائیڈلائن کو بھی ملحوظ ر کھیں اور اس پر سختی سے عمل پیراہوں۔انھوں نے یہ بھی کہا کہ اب چونکہ ایک حدمقررہوگئی ہے تو ایک مسجد میں کئی جماعتیں بھی ہوسکتی ہیں۔ اس کی صورت یہ ہے کہ ایک بارجہاں جماعت ہوگئی اس کے دائیں بائیں کی جگہ چھوڑکر جماعت کرلی جائے ۔

دکانیں اور شاپنگ مال کھلے مگر کاروبار پھیکا رہا
عبادت گاہوں کے علاوہ نجی اور سرکاری دفاتر، شاپنگ مال اور دکانیں بھی کھل گئی ہیں مگر اکثر مقامات پر کاروبار پھیکا رہا۔ دہلی میں دومہینے بعد تمام احتیاطی تدابیر کے ساتھ شاپنگ مال کھلے تو سہی مگر یہاں دکاندار گاہکوں کا انتظار کرتے نظر آئے۔اس بیچ شاپنگ مال وغیرہ میں ہر گھنٹے اُن مقامات کو سینی ٹائز کیا جاتا رہا جو عمومی استعمال میں رہتے ہیں۔ یہاں صارفین کے داخل ہونے سے قبل ان کا درجہ حرارت بھی ناپا گیا اور ہاتھوں کو سینی ٹائز کرنے کے بعد ہی اندر داخل ہونے کی اجازت دی گئی

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں