میرٹھ:پوری دنیا میں انسانی زندگی کے لئے دہشت کا ہم معنی بن چکے کرونا وائرس کے خطرے سے بچانے کے لئے سائنس دانوں کے منفر آلہ تیار کرلیا ہے جو نہ صرف اس خطرناک وائرس کی شناخت کرے گا بلکہ انتاہ دے کر لوگوں کو اس کے قہر سے بچا بھی سکےگا۔
شوبھت یونیورسٹی میرٹھ کے وائس چانسلر اور معروف سینئر مائکرو بایولوجسٹ پروفیسر امر پرکاش گرگ نے امریکہ کے سینٹ لوئس میں واشنگٹن یونیورسٹی کے محققین کے ذریعہ حال ہی میں تیار کردہ کورونا ڈیٹیکٹر کے بارے میں معلومات دیں۔ یواین آئی سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ ڈیٹیکٹر دنیا بھر میں ہوا سے پھیلنے والے کورونا وائرس کی موثر روک تھام کے لیے سنگ میل ثابت ہوگا۔
جرمنی، انگلینڈ، جاپان، سوئٹزرلینڈ، چیکوسلواکیہ اور کئی دیگر یورپی ممالک کی یونیورسٹیوں میں تحقیقی کام کرنے والے ڈاکٹر گرگ نے کہا کہ واشنگٹن یونیورسٹی میں کام کرنے والے ہند نژاد راجن چکرورتی کی رہنمائی میں ان کے ساتھیوں نے مسلسل کام کیا۔ اس کے بعد SARS Cove 2 Detector نامی ڈیوائس تیار کی گئی ہے۔ یہ پی سی آر ناک ساب کی طرح ہی حساس ہے لیکن اس سے کہیں زیادہ تیز، منٹوں میں کورونا وائرس کا پتہ لگاتا ہے۔
تحقیق کا حوالے سے ڈاکٹر گرگ نے بتایا کہ ایک ٹوسٹر سے کچھ بڑے سائر کا یہ ڈیٹیکٹر ہر منٹ میں ایک ہزار لیٹر ہوا کھینچتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ وائرس کو پھنسانے کے لیے ڈیوائس کے اندر مائع کو تیز رفتاری سے گھما کر ایک مصنوعی سائیکلون بنایا جاتا ہے اور اس سائیکلون کی دیوار میں کورونا وائرس پھنس جاتا ہے۔
ڈاکٹر گرگ نے بتایا کہ سائیکلون میں پھنسا ہوا کورونا وائرس ایک بائیو سینسر میں نینو باڈی سے منسلک الیکٹروڈ کے رابطے میں آتے ہی آکسیڈائز ہو کر ٹوٹ جاتے ہیں۔ اس آکسیڈیشن کی وجہ سے ہونے والی برقی سپائیک کو الیکٹروڈ جڑا ایک دیگر آلہ پتہ لگا لیتا ہے اور ہوا میں ہوا میں کورونا وائرس کی موجودگی کی نشاندہی کرتا ہے۔
اس ڈیٹیکٹر کے ابتدائی استعمال پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے ڈاکٹر گرگ نے کہا کہ یہ موبائل فون کے بزر کی طرح شور کرتا ہے، اس لیے اسکول کی کلاسوں یا دفاتر میں اس کا مسلسل استعمال عملی نہیں سمجھا جاتا۔ انہوں نے کہا کہ اگر اسے ایسی جگہوں پر 10 منٹ کے وقفے سے چلایا جائے تو یہ یقینی طور پر کارآمد ثابت ہوسکتا ہے۔
ڈاکٹر گرگ کا کہنا ہے کہ تقریباً 1600 ڈالر یعنی ایک لاکھ 31 ہزار روپے مالیت کا کورونا ڈیٹیکٹر فی الحال ہسپتالوں، ہوائی اڈوں اور دیگر عوامی مقامات پر وائرس کے سروے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ اگر وائرس کا پتہ چلا تو وہاں موجود لوگوں کو وینٹیلیشن سسٹم، ایئر کنڈیشن یا تھرمل کمیونیکیشن کو بڑھا کر اس کے انفیکشن سے بچایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسی ڈیوائس میں کچھ تبدیلیاں کر کے سانس کے دیگر وائرس جیسے انفلوئنزا یا ریسپائری سنسیٹیئل وائرس کا پتہ لگانے کا کام کیا جا رہا ہے۔
یواین آئی۔ولی