دہلی کے مختلف حصوں سے اسمگلنگ کے شکار 21 بچہ مزدورآزاد۔ چھاپے کے دوران 10.5 لاکھ روپے کی نقدی اور طلائی زیورات برآمد

نئی دہلی،دہلی میں دو پلیسمنٹ ایجنسیوں پر چھاپوں کے دوران 14 لڑکیوں سمیت 21 بچوں کو بچہ مزدوری سے آزاد کرایا گیا نیشنل کمیشن فار پروٹیکشن آف چائلڈ رائٹس (این سی پی سی آر) کی قیادت میں اس کارروائی میں محکمہ لیبر، ڈسٹرکٹ چائلڈ پروٹیکشن یونٹ (ڈی سی پی یو)، انسداد انسانی اسمگلنگ یونٹ، مقامی ایس ڈی ایم اور ایسوسی ایشن فار رضاکارانہ کارروائی (اے وی اے) نے حصہ لیا جسے بچپن بچاؤ آندولن کے نام سے جانا جاتا ہے) بھی شامل تھے۔ بی بی اے کو موصول ہونے والی شکایت پر کارروائی کرتے ہوئے مشترکہ ٹیم نے مغربی دہلی اور شمال مغربی دہلی کے اضلاع میں 10 مقامات پر چھاپے مارے۔ اس دوران 8 سے 17 سال کی عمر کے کل 21 بچوں کو رہا کیا گیا جنہیں تعلیم اور بہتر زندگی کے وعدے پر یہاں لایا گیا تھا۔ چھاپہ مار ٹیموں نے پایا کہ ان بچوں کو انتہائی ناگوار حالات میں رکھا گیا ہے۔ چھاپوں کے دوران 10.5 لاکھ روپے کی نقدی اور طلائی زیورات کی برآمدگی کے ساتھ ساتھ ایسے ہزاروں بچوں کے بارے میں دستاویزی معلومات بھی ملی ہیں۔

ان 21 بچوں میں سے 5 کو راجوری گارڈن سے، 3 کو نہال وہار سے اور 13 کو شکرپور سے آزاد کیا گیا۔ چھاپہ مار ٹیم کو چھاپے کے دوران شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا، خاص طور پر شکرپور میں جہاں مرکزی گیٹ بند تھا اور اسے دہلی کے لیفٹیننٹ گورنر سے خصوصی اجازت ملنے کے بعد ہی کھولا جا سکا۔ جب گوریلا ٹیم اندر داخل ہوئی تو دیکھا کہ بچے انتہائی خوفزدہ ہیں۔ بھوک اور نیند کی کمی کا شکار ان بچوں کو چائلڈ ویلفیئر کمیٹی کے سامنے پیش کیا گیا۔ ان بچوں کا تعلق ملک کی مختلف ریاستوں جیسے مغربی بنگال، اڈیشہ، آسام، اتر پردیش، بہار، جھارکھنڈ اور چھتیس گڑھ سے تھا۔

بچپن بچاؤ آندولن نے این سی پی سی آر کو دی گئی شکایت میں یہ مسئلہ اٹھایا تھا کہ بچوں کے اسمگلر پلیسمنٹ ایجنسیوں کا بہانہ کرتے ہوئے غریب اور بے سہارا خاندانوں کے بچوں کو نوکری فراہم کرنے کے وعدے کے ساتھ لاتے ہیں۔ اس کے بعد انہیں یا تو آجروں کے ہاتھوں بیچ دیا جاتا ہے یا جسم فروشی پر مجبور کیا جاتا ہے۔

بچپن بچاؤ آندولن کے ڈائریکٹر منیش شرما نے کہا، “اس چھاپے نے ایک بار پھر غریب خاندانوں کے بچوں کی حفاظت اور انہیں استحصال اور اسمگلروں سے بچانے کے لیے سخت قوانین اور ان کے سخت نفاذ کی ضرورت کو واضح کر دیا ہے۔ اب ان پلیسمنٹ ایجنسیوں کے ریگولیشن کی ضرورت ہے کیونکہ یہ بچوں کے اسمگلروں کے ہاتھ میں ایک خطرناک ہتھیار بن رہی ہیں۔ یہ اسمگلر اکثر غریب گھرانوں کے بچوں کو پرکشش وعدوں کا لالچ دے کر یا ان کے والدین کو پیسے دے کر دور دراز علاقوں سے بڑے شہروں میں لے آتے ہیں۔ اس ملک میں چائلڈ لیبر کی طلب اور رسد کا ایک شیطانی چکر چل رہا ہے۔ چائلڈ لیبر اور بچوں کی اسمگلنگ کا خاتمہ ہم میں سے ہر ایک کی ذمہ داری ہے اور ہم اس کے لیے اپنی آواز بلند کرتے رہیں گے اور بچوں کو آزاد کرنے کی مہم میں حکومت اور انتظامیہ کو ہر ممکن تعاون فراہم کریں گے۔

یو این آئی۔ ایف اے۔ م الف

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں