نئی دہلی، نیشنل ٹیسٹنگ ایجنسی (این ٹی اے) نے سپریم کورٹ کے سامنے دعویٰ کیا ہے کہ انڈر گریجویٹ سطح کے میڈیکل سمیت کچھ دوسرے کورسز میں داخلے کے لیے 5 مئی کو ہونے والا قومی اہلیت و داخلہ ٹیسٹ (NEET) 2024 مکمل طور پر منصفانہ ہو اور کسی خلل کے بغیر رازدارانہ طریقے سے انجام دیا گیا تھا اور اس کے نتائج کو شاذ ونادر غیر منصفانہ طرز عمل کی وجہ سے منسوخ نہیں کیا جاسکتا ہے۔
این ٹی اے نےعدالت عظمیٰ میں داخل کردہ اپنے حلف نامہ میں یہ دعویٰ کیا ہے۔ حلف نامے کے ذریعے ایجنسی نے نیٹ-یوجی 2024 کو منسوخ کرنے اور اس کے اعلان کردہ نتائج اور اس امتحان کو دوبارہ منعقد کرنے کا مطالبہ کرنے والی درخواستوں پر عدالت عظمیٰ کے سامنے اپنا موقف پیش کیا ہے۔
ایجنسی نے حلف نامہ میں کہا کہ مبینہ بدانتظامی کی مرکزی تفتیشی بیورو (سی بی آئی) کے ذریعہ تفتیش جاری ہے۔ تمام متعلقہ عوامل پر جامع غور وخوض کے بعد ہی حتمی رائے قائم کی جا سکتی ہے کہ آیا امتحان میں کوئی سنگین ناکامی ہوئی تھی یا نہیں۔
این ٹی اے نے کہا، “نیٹ (UG) کے امتحان کا عمل غلط نہیں ہے۔ اس کے نتائج کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مخصوص مقامات پر قابل شناخت افراد کے ذریعہ غیر مناسب طریقے اپنانے کے چھٹپٹ اور شاذ واقعات کی وجہ سے لاکھوں طلبہ وطالبات کے کریئر کے امکانات کو صرف نظر نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اپنی قابلیت کی بنیاد پر اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے طلبہ وطالبات کا مستقبل خطرے میں نہیں ڈالا جا سکتا ہے۔
ایجنسی نے کہا کہ یہ کوئی ایسا معاملہ نہیں ہے جس میں 14 غیر ملکی شہروں سمیت 571 شہروں کے 4750 مراکز پر مکمل امتحانی عمل منصوبہ بند طریقے سے ناکام رہا ہو۔
این ٹی اے نے کہا، ” تمام وسیع عوامل جیسے غیر منصفانہ ذرائع یا سوالنامے کو عام کرنے (پیپر لیک) وغیرہ کے ذریعہ یہ پورا عمل گڑبڑ نہیں ہوا ہے”۔
NEET کا امتحان منعقد کرنے والا ادارہ نیشنل ٹیسٹنگ ایجنسی نے کہا کہ اگر اس طرح کی کارروائی کی کوئی ٹھوس وجہ نہ ہونے کی صورت میں پورے امتحانی عمل کو منسوخ کر دیا جاتا ہے، تو یہ لاکھوں طلبہ وطالبات کے تعلیمی مستقبل پر انتہائی منفی اثر پڑے گا۔
این ٹی اے نے عدالت کو یہ بھی بتایا کہ این ٹی اے کی جانب سے مختلف حفاظتی اقدامات کی بدولت غیر منصفانہ طرز عمل اختیار کرنے کے الزامات کے 63 کیسز سامنے آئے، جن پر متعلقہ کمیٹی نے مناسب کارروائی کے لیے اپنی سفارشات پیش کیں۔ ان سفارشات میں 33 امیدواروں کے نتائج روکنا اور 22 طلبہ کے امتحان پر تین سال تک پابندی لگانا شامل ہے۔
ایجنسی نے عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ مختلف امتحانی مراکز میں غیر منصفانہ طریقے اپنانے کے معاملات میں 13 ایف آئی آر درج کی گئیں۔ امتحانات کا انعقاد کرنے والی ایجنسی این ٹی اے نے ان الزامات کو بھی مکمل طور پر بے بنیاد قرار دیا کہ زیادہ نمبر حاصل کرنے والے طلبہ کی زیادہ تعداد صرف چند مراکز سے تھی۔
ایجنسی نے کہا کہ سرفہرست 100 طلبہ وطالبات کا تعلق ملک بھر کی 18 ریاستوں/ مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے 56 شہروں میں واقع 95 مراکز سے ہے۔
واضح رہے کہ عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ کی سربراہی والی بنچ اس معاملے سے متعلق دیگر عرضیوں کی سماعت کرنے جا رہی ہے، جس میں 8 جولائی کو دوبارہ نیٹ 2024 (امتحان) منعقد کرانے کی ہدایت دینے کی مانگ بھی شامل ہے۔
یو این آئی۔ م ش۔