نئی دہلی، سپریم کورٹ نے ایک ماہ سے زیادہ عرصے سے ریاستی سرحد پر بھوک ہڑتال کرنے والے کسان لیڈر جگجیت سنگھ دلیوال کو اسپتال لے جانے اور انہیں طبی امداد فراہم کرنے سے متعلق کئی بار مہلت دیئے جانے کے باوجود اپنے حکم پر عمل درآمد نہ کرنے پر پر پنجاب حکومت پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ‘ریاستی حکومت کا رویہ مفاہمت کے حق میں نہیں ہے جسٹس سوریہ کانت اور اجل بھوئیاں کی بنچ نے ریاستی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ریاستی حکومت نے یہ تاثر پیدا کیا ہے کہ عدالت کسان لیڈر دلیوال کو طبی امداد فراہم کرنے کا حکم دے کر ان کی بھوک ہڑتال توڑنے کی کوشش کر رہی ہے۔ بنچ نے ان مشاہدات کے ساتھ یہ بھی واضح کیا کہ اسپتال میں داخل ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ قابل احترام لیڈر دلیوال اپنا پرامن احتجاج ختم کردیں گے۔
پنجاب کے ایڈوکیٹ جنرل گرومندر سنگھ نے بنچ کے سامنے واضح کیا کہ ریاستی حکومت کوئی متعصبانہ موقف نہیں اپنا رہی ہے۔ انہوں نے کہا “موقع پر موجود ہمارے لوگوں (ریاستی حکومت کے افسروں) نے ان (دلیوال) سے (طبی مدد حاصل کرنے کے لئے) اپنے جذبات کا اظہار کیا ہے، جو (مرکزی حکومت) کی مداخلت سے مشروط ہے۔”
اس پر بنچ نے ان سے پوچھا ‘کیا آپ نے انہیں بتایا ہے کہ ہم نے اس مقصد کے لیے ایک کمیٹی بنائی ہے؟ آپ کا رویہ صلح کے لیے بالکل بھی نہیں ہے، یہی مسئلہ ہے… وہ طبی امداد کے ساتھ اپنی بھوک ہڑتال جاری رکھ سکتے ہیں۔ ایسے میں کمیٹی کا کردار اہم ہو جاتا ہے… ہم جانتے ہیں کہ کچھ لوگ سیاسی بیانات دے رہے ہیں۔ ان میں کچھ کسان لیڈر بھی ہیں۔ دلیوال کے لیے ان کا کیا ارادہ ہے، اس پر بھی غور کیا جانا چاہیے۔‘‘
بنچ نے مزید کہا کہ ریاستی حکومت کے افسروں کی جانب سے جان بوجھ کر میڈیا میں یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی تھی کہ عدالت مسٹر دلیوال پر بھوک ہڑتال ختم کرنے کے لئے دباؤ ڈال رہی ہے۔
عدالت عظمیٰ نے کہا ’’ہماری ہدایات تھیں کہ وہ بھوک ہڑتال ختم نہ کریں ۔ ہم نے صرف اتنا کہا تھا کہ ان کی صحت کا خیال رکھا جائے پھر ان کی بھوک ہڑتال جاری رہ سکتی ہے۔ اسپتال میں داخل ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بھوک ہڑتال ختم ہوگئی ہے۔ ہماری فکر یہ ہے کہ ان کی زندگیوں کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔ ایک کسان رہنما کے طور پر ان کی زندگی قیمتی ہے۔ ان کا کسی سیاسی نظریے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ وہ صرف کسانوں کا مسئلہ اٹھا رہے ہیں۔
اس کے بعد مسٹر سنگھ نے دوبارہ بنچ کے سامنے کچھ وقت طلب کیا اور کہا کہ اہلکار موقع پر ہیں اور ریاستی حکومت اس معاملے میں تمام ضروری اقدامات کرے گی۔
سپریم کورٹ نے ریاستی حکومت کو تعمیل حلف نامہ داخل کرنے کی ہدایت دی اور کہا کہ اس معاملے کی اگلی سماعت پیر 6 جنوری 2025 کو ہوگی۔
31 دسمبر 2024 کو پنجاب حکومت نے بنچ کو بتایا تھا کہ منگل کے روز احتجاج کرنے والے کسانوں نے ایک تجویز پیش کی ہے کہ ان کے رہنما د لیوال، جو کہ انشن پر ہیں، طبی امداد تبھی حاصل کریں گے جب مرکز زرعی پیداوار کی کم از کم امدادی قیمت کی قانونی ضمانت سمیت ان کے دیگر تمام مطالبات پر ان سے بات کرنے کو تیار ہوگی ۔
اس کے بعد سپریم کورٹ نے پنجاب حکومت کو مسٹر دلیوال کو طبی مدد لینے کے لیے رضامند کرنے کی غرض سے تین دن کی اضافی مہ؛ت دی تھی ۔
مسٹر دلیوال 26 نومبر سے پنجاب-ہریانہ سرحد پر کسانوں کی پیداوار کے لیے کم از کم امدادی قیمت کی قانونی ضمانت سمیت مختلف مطالبات کے لیے آمرن انشن پر ہیں۔ 28 دسمبر کو عدالت عظمیٰ نے بھی مسٹر دلیوال کو طبی امداد دینے کے معاملے میں اپنے حکم پر عمل درآمد نہ کرنے پر پنجاب حکومت سے ناراضگی کا اظہار کیا تھا۔
سپریم کورٹ 20 دسمبر کے عدالتی حکم کے مطابق بھوک ہڑتال پر رہنے والے مسٹر دلیوال کو طبی امداد فراہم کرنے میں ناکام رہنے پر ریاستی حکومت کے خلاف دائر توہین عدالت کی درخواست کی سماعت کر رہی تھی۔
عدالت عظمیٰ نے 28 دسمبر 2024 کو پنجاب حکومت کی سرزنش بھی کی تھی اور مسٹردلیوال کو اسپتال میں داخل کرانے کے لیے 31 دسمبر تک کا وقت دیا تھا۔
عدالت نے یہ بھی کہا تھا کہ ریاستی حکومت کو ضرورت پڑنے پر مرکزی حکومت سے فوجی مدد لینے کی آزادی ہے۔
غیر سیاسی تنظیموں سمیت کسان مورچہ ( ایس کے ایم ) اور کسان مزدور مورچہ کے بینر تلے کسان پنجاب اور ہریانہ کے درمیان شمبھو اور کھنوری سرحد پر 13 فروری سے ہڑتال پر ہیں۔ اس دن پولیس نے ان کے دہلی مارچ کو وہیں روک دیا تھا۔
ان مظاہرین میں سے 101 کسانوں کے ایک گروپ نے 6 سے 14 دسمبر کے درمیان تین بار دہلی کی طرف پیدل مارچ کرنے کی کوشش کی لیکن ہریانہ کے سیکورٹی اہلکاروں نے انہیں روک دیا۔ یہ احتجاج کرنے والے کسان قرض معافی، پنشن، بجلی کے نرخوں میں کسی بھی طرح کے اضافے پر پابندی، احتجاج کرنے والے کسانوں کے خلاف درج مقدمات واپس لینے اور 2021 میں لکھیم پور کھیری تشدد کے متاثرین کو انصاف دلانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
یو این آئی ۔ ع خ