دہلی میں قرآن مجید کے نئے انگریزی ترجمہ کا اجرا

نئی دہلی، قرآن مجید کے تازہ ترین انگریزی ترجمے کا باضابطہ اجرا یہاں انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر میں کیا گیا اس تقریب میں مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے اسکالر ، مذہبی رہنما، طلبہ اور عام افراد نے شرکت کی، جس سے واضح ہوا کہ موجودہ دور میں اسلام کے پیغام کی کتنی اہمیت ہے اس موقع پر ڈاکٹر ظفر الاسلام خان نے، جو اس ترجمے اور تشریح کے مصنف ہیں، تفصیل سے اپنے کام کے بارے میں گفتگو کی۔ انہوں نے وضاحت کی کہ آج کے دور میں سادہ انگریزی زبان میں ایک جدید ترجمے کی ضرورت تھی تاکہ یہ الہامی کتاب ہر فرد کے لیے قابلِ فہم ہو۔ انہوں نے کہا کہ انگریزی زبان پوری دنیا میں پھیل چکی ہے لیکن جو انگریزی تراجم دستیاب ہیں وہ آج کے تقاضوں کو پورا نہیں کرتے اور ان کی تشریحات بھی موجودہ دور کے سوالات کا جواب دینے سے قاصر ہیں۔ ڈاکٹر خان کے مطابق یہ نیا ترجمہ نہ صرف مسلمانوں کو اللہ پاک کے احکامات پر عمل کرنے میں مدد دے گا بلکہ غیر مسلموں کے لیے بھی ایک موقع فراہم کرے گا کہ وہ اسلام کی مقدس کتاب کو بہتر طریقے سے سمجھ سکیں۔

ڈاکٹر خان ایک معروف اسلامی اسکالر ہیں، جنہوں نے جامعہ ازہر اور قاہرہ یونیورسٹی میں کسب علم کیا اور برطانیہ کی مانچسٹر یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ وہ اب تک پچاس سے زائد کتابیں عربی، انگریزی اور اردو میں تالیف و ترجمہ کر چکے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ یہ تفسیری ترجمہ دو ایڈیشنز میں دستیاب ہے: ایک میں عربی متن کے ساتھ متوازی ترجمہ شامل ہے اور دوسرا صرف انگریزی ترجمے پر مشتمل ہے۔ دونوں ایڈیشنز میں حواشی اور ضمیمے شامل ہیں، جو خاص طور پر اس ترجمے کے لیے لکھے گئے ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ یہ ترجمہ اب آن لائن بھی https://thegloriousquran.net/ پر دستیاب ہے، اگرچہ ویب ایڈیشن ابھی تکمیل کے مراحل میں ہے۔

ڈاکٹر خان نے قرآن کے انگریزی ترجمے کے پسِ پردہ اپنی تحریک کی وضاحت کی۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ کئی تراجم موجود تھے— پہلے مستشرقین نے کیے، پھر کچھ مسلمانوں نے کیے— لیکن ان میں بہت سی غلطیاں اور کمیاں تھیں۔ خاص طور پر عبداللہ یوسف علی کے ترجمے کو مسلمانوں میں بے حد مقبولیت ملی، لیکن ڈاکٹر خان نے ۱۹۸۰ کی دہائی سے ہی محسوس کیا کہ جب بھی وہ اپنی تقاریر یا تحریروں میں کسی آیت کا ترجمہ پیش کرنا چاہتے ، تو یوسف علی کے ترجمے میں انھیں بہت خامیاں نظر آتی تھیں۔ اس مشاہدے نے انہیں یہ عزم کرنے پر مجبور کیا کہ ایک دن وہ اس ترجمے کو درست کر کے شائع کریں گے۔

ڈاکٹر خان نے جذباتی انداز میں اپنے ترجمے کی ابتدا کے بارے میں بتایا کہ سنہ ۲۰۱۰ میں جب وہ اپنی اہلیہ کے ساتھ حج کے لیے گئے، تو مسجدِ حرام میں انہوں نے عہد کیا کہ وہ اب اس کام میں مزید تاخیر نہیں کریں گے۔ گھر واپسی کے بعد، جنوری ۲۰۱۱ میں انہوں نے اس منصوبے پر کام شروع کردیا۔ ابتدا میں یہ کام سست روی سے آگے بڑھا کیونکہ وہ دیگر ذمہ داریوں میں بھی مصروف تھے، لیکن ۲۰۲۰ سے ۲۰۲۳ تک انہوں نے خود کو مکمل طور پر اس ترجمے کے لیے وقف کر دیا، یہاں تک کہ اس دوران انہوں نے اخبار پڑھنا بھی ترک کر دیا۔

ڈاکٹر خان نے بتایا کہ اس کام کے دوران صرف مستند اور قدیم ترین عربی مآخذ کو استعمال کیا گیا ہے اور ترجمہ اور اسلام کا تعارف انہی اصولوں پر کیا گیا ہےجن پر ابتدائی مسلم علما اور مفسرین نے کام کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے کسی بھی قسم کی فلسفیانہ، فقہی یا لسانی بحث سے اجتناب کیا ہےکیونکہ یہ اکثر مسلمانوں کے درمیان اختلاف اور انتشار کا باعث بنتی ہیں۔ اگرچہ یہ کام عبداللہ یوسف علی کے ترجمے کی اصلاح کے طور پر شروع ہوا تھا، لیکن آہستہ آہستہ یہ ایک بالکل نئے ترجمے کی شکل اختیار کر گیا، جس میں قرآن کا مفصل تعارف، نبی کریم کی سیرت پر ایک مفصل باب اور کئی ضمیمے شامل کیے گئے ہیں، جو اسے ایک جامع اسلامی انسائیکلوپیڈیا بنا دیتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ اگرچہ وہ عربی زبان کو بخوبی جانتے ہیں بالکل عربوں کی طرح لیکن اس کے باوجود انہوں نے قرآن کے الفاظ، اصطلاحات اور تراکیب کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے گہرائی سے تحقیق اور لغوی ریسرچ کیا۔

تقریب کی صدارت ڈاکٹر سیدہ سیدین حمید، سابق رکن پلاننگ کمیشن آف انڈیا، نے کی۔ دیگر مقررین میں پروفیسر سلیم انجینئر، نائب صدر جماعت اسلامی ہند، مولانا محب اللہ ندوی ، رکن پارلیمنٹ، پروفیسر عبدالماجد قاضی ، شعبہ عربی جامعہ ملیہ اسلامیہ، پروفیسر محمد قطب الدین ،شعبہ عربی جواہر لال نہرو یونیورسٹی، ڈاکٹر وارث مظہری ،شعبہ اسلامیات جامعہ ہمدرد اور عبد الودود ساجد،مدیر انقلاب،دہلی ، شامل تھے۔

تقریب کے آغاز میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کے سابق وائس چانسلر اور دہلی کے سابق لیفٹیننٹ گورنر نجیب جنگ کا پیغام پڑھ کر سنایا گیا، جو دہلی سے باہر ہونے کی وجہ سے تقریب میں شریک نہ ہو سکے۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے بچپن سے لے کر آج تک قرآن کے کئی انگریزی تراجم پڑھے ہیں، لیکن ڈاکٹر خان کے ترجمے کو “بہترین میں بہترین” قرار دینے میں انہیں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہے۔ انہوں نے اپنے پیغام میں کہا کہ’’آسان زبان میں یہ ترجمہ ہم کو نہ صرف اول درجے کا ترجمہ فراہم کرتا ہے بلکہ ایسی تشریحات بھی فراہم کرتا ہے جس میں ان سب چیزوں کا جواب ہے جن کے بارے میں ہم برسوں سے سوال کرتے تھے‘‘۔عبدالودود ساجد نے ڈاکٹر خان کے ترجمے کو “شاندار کارنامہ” قرار دیا اور قرآن پاک میں موجود سماجی انصاف کے احکام پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔

جماعت اسلامی ہند کے نائب صدر پروفیسر سلیم انجینئر نے کہا کہ جماعت کے امیر سید سعادت اللہ حسینی اس بابرکت محفل میں شرکت کرنے والے تھے لیکن انہیں اچانک ایک خاندانی ایمرجنسی کے باعث حیدرآباد جانا پڑا۔ پروفیسر انجینئر نے کہا کہ ڈاکٹر خان کا انگریزی ترجمہ نہایت آسان زبان میں ہے اور اسے پڑھنے کے لیے لغت کی ضرورت نہیں۔ انھوں نے کہا کہ اس ترجمے کا مقدمہ، حواشی اور ضمیمے بہت مفصل ہیں جن سےان بہت سے سوالات کا جواب ملتا ہےجو انگریزی داں لوگ قرآن پاک کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں۔

مولانا محب اللہ ندوی (رکن پارلیمنٹ) نے ڈاکٹر خان کے کام کو انتہائی محنت طلب اور مستند قرار دیا اور کہا کہ اس سے لاکھوں لوگ مستفید ہوں گے۔ انھوں نے کہا یہ ایک بہت خوبصورت کوشش ہے۔

پروفیسر عبدالماجد قاضی نے اس ترجمے کی تاریخی حیثیت پر روشنی ڈالی اور کہا کہ انہوں نے اس ترجمے کو مکمل طور پر پڑھا ہے اور اسے نہایت خوبصورت اور بہترین پایا ہے۔ انہوں نے قرآن کے مختلف زبانوں میں ترجمے کی تاریخ پر روشنی ڈالی، جو ابتدائی طور پر لاتینی اور دیگر یورپی زبانوں میں کیے گئے تھے۔ یہ تراجم زیادہ تر مستشرقین اور عیسائی علماء نے کیے، تاکہ اسلامی مقدس کتاب کی ایک غلط تشریح پیش کر سکیں ۔ انہوں نے کہا کہ ابتدائی تراجم کا مقصد عیسائیت کو اسلام پر برتر ثابت کرنا تھا۔

انہوں نے اس بات کی نشاندہی کی کہ قرآن پاک کے سو سے زیادہ انگریزی تراجم ہو چکے ہیں، جو زیادہ تر مستشرقین اور قادیانیوں نے کیے ہیں۔ تاہم بعد میں مسلمانوں نے بھی قرآن کا ترجمہ کرنا شروع کیا۔ مسلمانوں کے کیے گئے تراجم میں سب سے نمایاں مارماڈوک پکتھال کا ترجمہ ہے، اس کے بعد عبداللہ یوسف علی اور محمد اسد کا ترجمہ آتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ان ابتدائی تراجم میں نمایاں کمزوریاں تھیں، جبکہ ڈاکٹر خان کے ترجمے نے بڑی حد تک ان خامیوں کو دور کر دیا ہے، جس کی وجہ سے یہ ایک نہایت خوبصورت اور قابل قبول ترجمہ بن گیا ہے۔ پروفیسر عبدالماجد نے اس بات کو زور دے کر کہا کہ ڈاکٹر خان کا ترجمہ سادہ زبان میں ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ اس قدر سادہ اور بامحاورہ ترجمہ تخلیق کرنا ایک نہایت مشکل کام ہے۔ اپنی بات کی وضاحت کے لیے انہوں نے ایک اطالوی کہاوت بیان کی جس کے معنی ہے ’’ترجمہ خیانت ہے‘‘، جس کا مطلب ہے کہ کسی کتاب کے اصل مفہوم کو صحیح طور پر سمجھنے کے لیے مترجم کو دونوں زبانوں پر مکمل عبور حاصل ہونا چاہیے تاکہ وہ اپنے کام کے ساتھ انصاف کر سکے۔

پروفیسر محمد قطب الدین نے ڈاکٹر خان کے ترجمے کا تفصیلی جائزہ پیش کیا۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ ڈاکٹر خان صرف ایک مترجم ہی نہیں بلکہ ایک گہرے عالم دین بھی ہیں جو جہاں ضرورت ہو اجتہاد کرتے ہیں، مخصوص اصطلاحات اور عبارات کو واضح کرتے ہیں، جن میں خواتین کے حجاب، ذمیوں کے حقوق، جدید ہجرت کے مسائل اور اقلیت کے طور پر رہنے والے مسلمانوں کے مسائل شامل ہیں۔

ڈاکٹر وارث مظہری نے کہا کہ قرآن کا یہ ترجمہ نہایت آسان اور سادہ ہونے کے ساتھ جامع بھی ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ مترجم کا دونوں زبانوں پر مہارت رکھنا ضروری ہے، اسے عبارت کی فصاحت کو گہرائی سے سمجھنا چاہیے، اور جس چیز کا ترجمہ کر رہا ہو، اس پر ایمان بھی رکھنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ یہ تمام خوبیاں ڈاکٹر خان میں موجود ہیں، جو عربی اور انگریزی زبانوں پر عبور رکھتے ہیں اور ملکی و بین الاقوامی سطح پر مسلمانوں سے متعلق موجودہ مسائل کی گہری سمجھ بھی رکھتے ہیں۔ انہوں نے اس ترجمہ کو سراہا کہ اس میں عصری مسائل جیسے خواتین کا مقام، سیاست، دفاعی جہاد، اور جدید تصورات جیسے ذمیوں کی حیثیت، سنگساری، ارتداد اور جدید زندگی میں خواتین کے مقام پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر خان نے ان تمام موضوعات کو اپنے ترجمے میں نہایت خوبصورت انداز میں سمو دیا ہے۔آخر میں تقریب کی صدر ڈاکٹر سیدہ سیدین حامد نے ڈاکٹر ظفر الاسلام کو اس عظیم کامیابی پر مبارکباد دی اور اس تقریب میں شرکت پر خوشی ظاہر کی۔

اس تقریب کی نظامت معروف اردو صحافی اور مصنف معصوم مرادآبادی نے کی، جنہوں نے ڈاکٹر ظفرالاسلام کی علمی، صحافتی اور سماجی خدمات کا تعارف کرایا اور بتایا کہ وہ پچھلے پچاس برسوں سے بطور اسلامی اسکالر، صحافی اور ہندوستانی مسلم سماج کے ایک لیڈر کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔

تقریب کا آغاز تلاوتِ قرآن مجید اور اس کے ترجمے سے ہوا، جس نے پوری مجلس پر ایک روحانی کیفیت طاری کر دی۔ اس کے بعد ماہرالقادری کی ایک نظم پڑھی گئی، جس میں قرآن مسلمانوں سے شکوہ کرتا ہے کہ انہوں نے اسے ترک کر دیا ہے۔

یو این آئی۔ف ا- م ا

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں