نئی دہلی، راجیہ سبھا کے چیئرمین جگدیپ دھنکھڑنے منگل کو حکومت کو ہدایت دی کہ 22 تصاویر پر مشتمل آئین ہی اصل آئین ہے اور جن کاپیوں میں یہ تصاویر نہیں ہیں ان کی فروخت یا تشہیر نہ کی جائے۔
ایوان میں وقفہ صفر کے دوران بی جے پی کے رادھا موہن اگروال کی طرف سے یہ معاملہ اٹھائے جانے کے بعد کانگریس ارکان کے ہنگامے کے درمیان مسٹر دھنکھڑ نے کہا کہ پارلیمنٹ کی ترمیم کے بغیر آئین میں کوئی تبدیلی نہیں کی جا سکتی اور ایسی تبدیلیاں کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جانی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ یہ تصاویر ہماری پانچ ہزار سالہ شاندار ثقافت کی علامت ہیں۔ بابا صاحب بھیم راؤ امبیڈکر سمیت تمام آئین سازوں نے آئین پر دستخط کرکے ان تصاویر کو منظوری دی تھی اور اس کے بغیر آئین کی اشاعت یا نشر کرنا ایک سنگین معاملہ ہے۔ حکومت کو اس پر فوری کارروائی کرنی چاہئے اور ان تصاویر کے بغیر بازار میں آئین کی کاپیوں کی فروخت پر پابندی لگائی جانی چاہیے اور آن لائن بھی یہ یقینی بنایا جانا چاہیے۔
چیئرمین نے کہا کہ آئین کے ایک ایک باب کے ساتھ ایک تصویر ہے جو متعلقہ باب کی اہمیت کو ظاہر کرتی ہے اس لیے پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی جا سکتی۔ انہوں نے حکومت سے کہا کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ ان 22 آرٹیکلز کے بغیر آئین کی کوئی کاپی نہیں ہونی چاہیے۔
مسٹر دھنکھڑ نے کہا کہ ان 22 تصاویر کو آئین میں شامل کرنے اور اس معاملے کو آج ایوان میں اٹھانے کے مثبت نتائج برآمد ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ آئین کی اصل کاپی میں کسی بھی وجہ سے کوئی بھی تبدیلی فوری طور پر نوٹس میں لائی جانی چاہئے اور اس میں فوری طور پر اصلاح کی جانی چاہیے۔
وقفہ صفر کے دوران یہ معاملہ اٹھاتے ہوئے مسٹر اگروال نے کہا کہ ہندوستانی آئین کے ساتھ غیر آئینی طریقے سے چھیڑ چھاڑ کی گئی ہے کیونکہ اصل کاپی بازار میں دستیاب نہیں ہے۔ آج بچوں کو جو آئین پڑھایا جا رہا ہے، اس سے اصل کاپی میں موجود 22 تصاویر کو غیر آئینی طریقے سے ہٹا دیا گیا۔ آئینی ترمیم کا ایک عمل ہوتا ہے لیکن ترمیم کے بغیر 26 جنوری 1949 کو دستخط کیے گئے آئین کے کسی تصویر کو ہٹایا نہیں جا سکتا۔
انہوں نے کہا کہ مسٹر نند لال بوس کو آئین ساز اسمبلی نے ان تصاویرکو بنانے کے لیے مقرر کیا تھا اور انہوں نے کل 22 تصاویر بنائی تھیں، جن میں وادی سندھ کی تہذیب سے لے کر آئین کی تشکیل تک کے عرصے سے متعلق تصاویر شامل ہیں، جس میں سری لنکا سے واپس آنے والے بھگوان رام کی تصاویربھی شامل ہے۔ اس میں مہابھارت کے دوران کروکشیتر میں بھگوان کرشن کے اپدیش والی تصاویر بھی شامل ہے۔ مہاویر اور شہنشاہ وکرمادتیہ کے علاوہ اس میں گاندھی جی، لکشمی بائی، ہمالیہ، سمندر اور نیتا جی سبھاش چندر بوس کی تصاویر بھی ہیں، جنہیں پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر ہٹا دیا گیا ہے۔
اس پر کانگریس ارکان نے ہنگامہ شروع کردیا۔ اس دوران مسٹر دھنکھڑ نے حکومت کو ہدایات دیں۔ اس کے بعد اسپیکر نے اپوزیشن لیڈر ملکارجن کھڑگے سے اپنے خیالات پیش کرنے کے لئے کہا۔ مسٹر کھڑگے نے کہا کہ اسے غیر ضروری طور پر اٹھا کر مسئلہ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ بابا صاحب نے یہ آئین بنایا تھا اور اب اس معاملے کی وجہ سے اسے تنازعات میں لایا جا رہا ہے۔ جب سے آئین نافذ ہوا ہے، پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔ اس معاملے کے ذریعے بابا صاحب کو بدنام کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
اس کے بعد ایوان کے لیڈر جے پی نڈا نے کہا کہ اپوزیشن بالخصوص کانگریس کو اس اہم معاملے سے کافی تکلیف ہورہی ہے کیونکہ آئین کے اس اہم حصے سے ملک کے باشندوں بالخصوص نوجوانوں کو محروم رکھنا ان کا ایجنڈا ہے۔ ان کا ایجنڈا لوگوں کو ملک کی شاندار ثقافت سے محروم کرنا رہا ہے جس کی وجہ سے انہیں تکلیف ہورہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کانگریس کے لئے قوم پرستی کے معنی الگ رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اپوزیشن لیڈر اس معاملے کو سیاسی ایشو بنا کر فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اپوزیشن کے لیڈر نے بابا صاحب کو بدنام کرنے کا الزام لگایا ہے جو سراسر غلط ہے۔ ایوان میں آئین کی اصل کاپی دکھاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس میں یہ 22 تصاویر ہیں اور اب ان تصاویر کے بغیر کاپیاں دستیاب نہیں ہوں گی۔
اس پر ترنمول کانگریس کے ڈیرک اوبرائن نے کہا کہ ان کے آئی پیڈ میں آئین کی کاپی ہے جس میں ایک بھی تصویر نہیں ہے۔ اس پر مسٹر دھنکھڑ نے کہا کہ ان تصاویر کے بغیر آئین کو آن لائن بھی فروغ نہیں دینا چاہئے۔ اس کے لیے بھی فوری کارروائی کی جانی چاہیے۔
یو ای ن آئی۔ این یو۔