ساہتیہ اکیڈمی کے چاہنے کے باوجودبھی اس مرتبہ اُردو ترجمہ ایوارڈ نہیں دیا جارہا ہے: ڈاکٹر سید احمد خاں

ئی دہلی، موجودہ دور میں اُردو کے ساتھ مسلسل امتیازی سلوک کئے جانے کی خبریں موصول ہوتی رہتی ہیں ۔ تاہم ایک خبر پرانی نہیں ہوتی کہ دوسری خبر آتی ہے کہ فلاح ادارے نے اُردو والوں کو نظر انداز کیا ۔ اب تازہ معاملہ ساہتیہ اکیڈمی کا سامنے آیا ہے ۔

ساہتیہ اکیڈمی ترجمہ ایوارڈ 2024 کیلئے 21 زبانوں کے مترجمین کو منظوری دی گئی ہے۔

افسوک ناک بات یہ ہے کہ اس مرتبہ اُردو ترجمہ ایوارڈز میں کسی کا نام شامل نہیں ۔اس معاملے کو لیکر اُردو حلقوں میں سخت مایوسی چھائی ہوئی ہے ۔

نام نہ شائع کرنے کی شرط پر اُردو کی ایک اہم شخصیت نے نمائندہ سے بات چیت کے دوران کہاکہ ساہتیہ اکیڈمی نے امسال اردو زبان کے کسی ادیب و شاعر کو ایوارڈ نہیں دیا جبکہ دوسری زبانوں کے لکھنے والوں کو ایوارڈ دیدیے گئے، غالب انسٹی ٹیوٹ نے اس سال صرف تین ایوارڈ دیے ہیں جبکہ ہر سال پانچ چھ ایوارڈ دیے جاتے تھے، نئی ایجوکیشن پالیسی میں مرکزی سرکار نے مادری زبان کے خانے سے اردو کو نکال دیا ہے اور سنسکرت کو شامل کیا ہے اور ڈی پی ایس متھرا روڈ نے تھرڈ لینگویج کے طور پر تیسرے کلاس سے پڑھائی جانے والی زبانوں میں سے اردو کو نکال دیا گیا ہے لیکن اردو کے نام نہاد ٹھیکیداروں کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔

انہوں نے کہاکہ اُردو کے بڑے اداروں میں کچھ لوگ ایسے ہیں جہاں احتجاج کرنا چاہیے وہاں کچھ نہیں کرتے لیکن جو لوگ ایمانداری اور محنت کے ساتھ کام کررہے ہیں ان پر جھوٹے سچے اعتراضات کرکے رخنہ اندازی کرتے رہتے ہیں اور اس کو اردو کی خدمت سمجھتے ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ اردو سے جھوٹی محبت کرنے والے لیفینینٹ گورنر کو لکھ رہے ہیں کہ اردو اکادمی سرکار بدلنے کے باوجود اقبال اور میڈیا پر سیمینار کرا رہی ہے ۔ ان سب کو بند کرائیے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں پورے اخلاص کے ساتھ اُردو کی فلاح و بہبود کیلئے کام کرنا چاہئے ۔اس بابت بات کرتے ہوئے اُردو زبان کے محسن ڈاکٹر سید احمد خاں نے بھی اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہاکہ اکیڈمی کے چاہنے کے باوجود بھی اس مرتبہ اُردو ترجمہ ایوارڈ نہیں دیا جارہا ہےجو قابل اعتراض بھی ہے اور افسوس ناک بھی ۔ڈاکٹر سید احمد خاں نے سوال اٹھاتے ہوئے کہاکہ اگر اکیڈمی کی ایوارڈ دینے کی خواہش نہ ہوتی تو وہ اُردو جیوری کمیٹی تشکیل نہ دیتی لیکن کمیٹی کے ممبران کو کس بنیاد پر ایوارڈ کیلئے کوئی اُردو کتاب اور اردو داں نظر نہیں آیا ۔اس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے ۔

کیونکہ اپنے ہی لوگ اُردو کو نظر انداز کر رہے ہیں یہ کمیٹی کی تنگ نظری ہے کہ اس نے ایسا مظاہرہ کیا ہے اور یہ افسوس کا مقام ہےکیونکہ کمیٹی کے تمام لوگ ذمہ دار لوگ ہیں اور انہیں اپنی ذمہ داری کا احساس ہونا چاہئے ۔

واضح رہے کہ اُردو جیوری کمیٹی میں ڈاکٹر جاوید انور ، ڈاکٹر شمس اقبال اور ذکیہ مشہدی کے نام شامل تھے ۔خبروںمیں ساہتیہ اکیڈمی کے ڈپٹی سکریٹری برائے ایوارڈ سری بابو راجن ایس نے اس معاملے پر اپنی وضاحت پیش کی ہے ان کا کہنا ہے کہ اُردو ترجمہ ایوارڈ کا اعلان نہ کرنے میں اکیڈمی کا کوئی عمل دخل نہیں ہے ۔ ہم نے اُردو ترجمہ ایوارڈ 2024 کے لئے تین رکنی جیوری کمیٹی تشکیل دی تھی اور ایوارڈ کا انتخاب کرنے کیلئے اُردو مترجمین کی کتابیں بھی فراہم کی تھیں لیکن کمیٹی نے کسی بھی نام پر مہر نہیں لگائی ۔ڈپٹی سکریٹری کے بیان سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ جیوری کمیٹی میں شامل لوگوں نے ایوارڈ کے اعلان میں رخنہ ڈالنے کا کام کیا ہے۔

یو این آئی۔ ف ا۔م ا

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں