مشکل ترین وقت میں عوام نے کشمیریت اورمہمان نوازی کی شمع کو فروزاں رکھا:وزیراعلیٰ عمرعبداللہ

صرف بندوق یاسیکورٹی فورسزکی وجہ سے نہیں بلکہ عوامی تعاون سے دہشت گردی کا خاتمہ ممکن
ریاستی درجہ کیلئے سیاست کایہ صحیح وقت نہیں
سری نگر:جے کے این ایس : جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے پیر کو کہا کہ ان کی حکومت دہشت گردی کے خلاف عوام کی جنگ کو مضبوط بنائے گی کیونکہ اسے عوام کے تعاون سے ہی شکست دی جا سکتی ہے۔تاہم عمرعبداللہ نے خبردار کیا کہ حکومت کو کسی بھی ایسے قدم سے گریز کرنا چاہیے جس سے عوام کو الگ کر دیا جائے۔جے کے این ایس کے مطابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے پہلگام دہشت گردانہ حملے کی مذمت کےلئے اسمبلی کے ایوان میں پیش کی گئی قرارداد پر بحث سمیٹتے ہوئے کہاکہ دہشت گردی تب ختم ہو جائے گی جب لوگ ہمارے ساتھ ہوں گے۔انہوںنے کہاکہ دہشت گردی کےخلاف لوگوں کے غم و غصے کو دیکھتے ہوئے، یہ اس کے خاتمے کا آغاز ہے اگر ہم مناسب اقدامات کریں۔انہوں نے کہا کہ ہمیں کوئی ایسا قدم نہیں اٹھانا چاہیے جس سے لوگوں کو الگ کر دیا جائے۔جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے کہاکہ ہم بندوق سے دہشت گرد کو قابو نہیں کر سکتے لیکن اگر لوگ ہمارے ساتھ ہوں تو ہم دہشت گردی کو ختم کر سکتے ہیں۔ میرے خیال میں اب وقت آ گیا ہے۔جموں و کشمیر میں بے مثال اور بے ساختہ مظاہروں کا حوالہ دیتے ہوئے عمر عبداللہ نے کہا کہ سری نگر کی جامع مسجد میں پہلی بار نماز جمعہ سے قبل دو منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی۔ وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے کہاکہ ہم اس کا مطلب سمجھ سکتے ہیں۔ ہم اس تبدیلی کو مضبوط بنانے کی کوشش کریں گے۔عمر عبداللہ نے جموں کشمیر اسمبلی میں پہلگام حملے کی سخت مذمت کرتے ہوئے ہلاک شدہ سیاحوں کے اہل خانہ کےساتھ تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے مقامی گھوڑے بان سید عادل حسین شاہ کی بہادری کی تعریف کی وہیں انہوں نے کہا کہ یہ وقت سیاست کرنے یا مرکزی حکومت سے ریاستی درجہ کی بحالی کےلئے زور دینے کا مناسب وقت نہیں نہیں۔وزیر اعلیٰ نے مزید کہا کہ یہ وقت سیاست کرنے یا حکومت ہند سے ریاستی درجہ مانگنے کا نہیں ہے۔

عمر عبداللہ نے کہاکہ ایسے وقت میں اگر میں ریاستی درجہ مانگوں تو یہ میرے لئے بددعا ہوگی۔انہوںنے کہاکہ ریاستی درجہ مانگنے کے اور بھی مواقع آئیں گے، لیکن یہ وقت صرف دہشت گردی کی مذمت اور متاثرہ خاندانوں سے ہمدردی کا ہے۔

عمر عبداللہ نے اسمبلی اراکین کو میزیں بجانے سے بھی منع کیا۔عمرعبداللہ نے کہاکہ36 سالوں میں پہلی بار میں نے جموں و کشمیر کے لوگوں کو کھڑے ہوتے ہوئے دیکھا،میرے نام پر نہیں، وہ اپنے طور پر نکلے، کسی سیاسی جماعت نے انہیں منظم نہیں کیا، کسی حکومتی حکم نے انہیں طلب نہیں کیا، وہ موم بتیاں جلائے، بینرز اٹھائے اور مجرموں کو یہ بتانے کے لیے سڑکوں پر خاموشی سے چلتے رہے۔وزیراعلیٰ نے حملے کی رات پولیس کنٹرول روم کا دورہ کرنے کا ذکر کیا، جہاں26 شہریوں کی لاشیں پڑی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ ان کے پاس غمزدہ خاندانوں کو پیش کرنے کے لیے الفاظ نہیں ہیں۔ عمرعبداللہ نے مختصر توقف کرتے ہوئے پوچھاکہ ان خاندانوں کا کیا قصور تھا؟،کہ وہ یہاں پہلی بار سکون پانے کے لیے آئے تھے؟ اور زندگی نے انھیں اتنی بھاری قیمت چکانی پڑی۔

عمرعبداللہ نے گزشتہ3 دہائیوں کے دوران کشمیر کی بھاری قیمت کے بارے میں بات کی۔انہوںنے کہاکہ اکتوبر2001 میں اسی اسمبلی کمپلیکس پر ہونے والے حملے میں ہم نے لوگوں کو کھو دیا تھا۔ کیمپوں پر حملے کئے گئے تھے۔ پنڈتوں کی بستیوں، سکھ کالونیوں میں ، کسی کو بھی نہیں بخشا گیا تھا۔انہوںنے کہاکہ ہم نے سوچا کہ وہ دن اب ختم ہو گئے ہیں۔ لیکن 22 اپریل کے حملے نے ڈراو ¿نا خواب دوبارہ بنا دیا۔وزیر اعلیٰ نے مزید کہا کہ خونریزی کے درمیان بھی امید کی کرن نظر آئی،پہلی بار، کشمیریوں نے معقولیت، جواز یا خاموشی اختیار نہیں کی، انہوں نے بلند آواز اور واضح الفاظ میں مذمت کی۔انہوںنے کہاکہ دہشت گردی صرف بندوقوں یا سیکورٹی فورسز کی وجہ سے ختم نہیں ہوگی، یہ تب ہی ختم ہوگی جب لوگ ہمارے ساتھ چلیں گے اور اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ ہمارے پاس آنا شروع ہو گئے ہیں۔عمرعبداللہ نے بتایا کہ شاید سب سے زیادہ علامتی لمحہ سری نگر کی تاریخی جامع مسجد سے آیا تھا۔ نماز جمعہ سے پہلے، مسجد، ایک ایسی جگہ جو اکثر شعلہ بیان سیاسی خطبوں سے منسلک ہوتی ہے، خاموش ہوگئی۔ نمازیوں نے متاثرین کی یاد میں 2 منٹ کی خاموشی اختیار کی۔انہوں نے ایوان کو یقین دلایا کہ مکمل ریاست کےلئے جدوجہد جاری رہے گی لیکن اس بات پر زور دیا کہ آج کا دن سیاسی مطالبات کا دن نہیں ہے۔ آج، کوئی سیاست نہیں، کوئی کاروباری اصول نہیں، ریاست کا کوئی مطالبہ نہیں، صرف ایک چیز: حملے کی دلی مذمت اور خاندانوں کےساتھ اظہار یکجہتی۔وزیراعلیٰ نے حملے کے دن سے بہادری اور انسانیت کی غیر معمولی داستانیں سنائیں۔ایک نوجوان لڑکے نے ایک سیاح خاندان کو آگ کی زد میں چھوڑنے سے انکار کر دیا، باپ سے کہاکہ اس سے پہلے کہ کوئی آپ کی بیوی اور بچے تک پہنچ جائے، وہ میرے پاس سے گزر جائیں۔ ڈل جھیل میں کشتی والوں نے سیاحوں کو مفت پھل پیش کیے، ٹیکسی ڈرائیوروں اور ہوٹل مالکان نے تشدد سے بھاگنے والے زائرین کے لیے اپنے گھر کھول دئیے، کسی بھی قسم کی ادائیگی سے انکار کیا۔ یہ کشمیرکی مہمان نوازی ہے، یہ ہمارے جذبے پر فخر ہے۔

انہوں نے یہ بھی تسلیم کیا کہ حملے کے فوری بعد کچھ کشمیریوں کو ملک کے کچھ حصوں میں ہراساں کرنے کا سامنا کرنا پڑا، لیکن انہوں نے ریاستی حکومتوں اور پولیس فورسز کی تعریف کی جنہوں نے کشیدگی کو روکنے کےلئے تیزی سے کام کیا۔ عمر عبداللہ نے کہا کہ حکومت نے اہم شہروں میں وقف ہیلپ لائن نمبر اور نوڈل افسران قائم کرنے کے اقدامات شروع کیے ہیں تاکہ خطرات کا سامنا کرنے والے کشمیری فوری مدد حاصل کر سکیں۔انہوں نے سوشل میڈیا کا غلط استعمال کرنے والوں کو بھی متنبہ کیا کہ وہ غلط بیانی اور جعلی خبریں پھیلائیں جو کشیدگی کو ہوا دے سکتی ہیں۔ اپنی شرارتیں بند کرو۔انہوںنے کہاکہ جب آپ جھوٹ پھیلاتے ہیں، تو آپ حقیقی متاثرین کو مزید تکلیف پہنچاتے ہیں، ہم اسے برداشت نہیں کریں گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں