اپنی پارٹی صدر سید الطاف بخاری نے کہا ہے کہ جموں وکشمیر اپنی پارٹی ، بھارتیہ جنتا پارٹی کی ’بی‘ٹیم نہیں جیسا کہ سیاسی حریف نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی کی طرف سے کہاجارہا ہے ، دراصل یہ ایک ایسی سیاسی جماعت ہے جس کی کوئی خاندانی سیاسی تاریخ نہیں ہے۔ بخاری نے ایک انٹرویو کے دوران کہاکہ ”در اصل جب ہماری جماعت کےلئے ’بی ‘ٹیم یا ’کنگ پارٹی ‘جیسے الفاظ استعمال کئے گئے تو مجھے ہنسی آئی، نیشنل کانفرنس سال 1999سے بھارتیہ جنتا پارٹی کے ساتھ اقتدار میں رہی، پی ڈی پی کا 2014اسمبلی انتخابات کے بعد بھارتیہ جنتا پارٹی کے ساتھ الائنس رہا لیکن ایسے نام میری جماعت کو دیئے جارہے ہیں۔ حقیقت میں وہ (نیشنل کانفرنس/پی ڈی پی) بھارتیہ جنتا پارٹی کی ’بی‘ٹیمیں ہیں۔ بخاری نے نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی کی چٹکی لی اور کہاکہ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اِن جماعتوں کو اپنے افراد خانہ کے علاوہ کوئی دوسراپسند نہیں کرتا۔ الطاف بخاری جوکہ مفتی محمد سعید اور محبوبہ مفتی قیادت والی سابق مخلوط حکومتوں میں کابینہ وزیر رہے ہیں نے کہا”یہ مضحکہ خیز ہے کہ ایک جماعت جس نے دہلی سے کوئی بھی فائدہ حاصل نہیں کیا ،کو ’بی ٹیم‘قرار دیاجارہاہے ، جنہوں نے اقتدار کا مزہ چکھا ، جنہیں بھارتیہ جنتا پارٹی کا دست ِ تعاون بھی حاصل رہا، وہ آج ہمیں بی ٹیم کہہ رہے ہیں، لوگ یقینی طور اِن سیاسی جماعتوں کی پول کھولیں گے جوصرف اقتدار حاصل کرنے کی خاطر سیاست میں آنے والے نئے لوگوں کے بارے میں شکو ک وشبہات پیدا کرنا چاہتے ہیں“۔ الطاف بخاری نے کہا”جماعت نہیں ہے اور ہم سب بدلے حقائق کے ساتھ جموں وکشمیر کے سیاسی منظر نامے پر اُبھرنے کی کوشش کر رہے ہیں، صرف اس لئے کہ میں دہلی گیا اور وزیر اعظم سے ملاقات کی، جیلوں میں مقید لوگوں کی رہائی ، ڈیموگرافی تبدیل ہونے کے عوامی خدشات پر بات کی اور یہ بات یقینی بنانے پرزور دیاکہ اراضی اور نوکریوں کا نقصان جموں وکشمیر کے شہریوں کو نہ ہو،کیوں وہ (نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی )اِس پر چلارہے ہیں، کیونکہ وہ سوچتے ہیں کہ صرف وہی دہلی جاسکتے ہیں، وہ سوچتے ہیں کہ دہلی میں برسرِ اقتدار لوگوں سے ملاقات کا اُنہیں موروثی حق ہے اور جب کوئی الطاف بخاری جیسا شخص وزیر اعظم سے ملاقات کرتا ہے تو وہ دہلی کا ایجنٹ کہلاتا ہے“۔ بخاری نے مزید کہا”1947سے یہی ہوتا رہا ہے، جب کبھی بھی اِن خاندانوں کے علاوہ دہلی کوئی بھی گیا، اُنہیں دہلی کا ایجنٹ قرار دیاگیا جہاں دلی میں جو بھی حکمراں جماعت ہوئی اُس کی ’بی‘ٹیم قرار دیاگیا۔ وہ ہر ایک کو صرف اِس لئے بیوقوف بنارہے ہیں تاکہ جموں وکشمیر کے اندر اُن کی اقتدار میں واپسی یقینی ہو“۔ ضلع ترقیاتی کونسل انتخابات میں جموں وکشمیر اپنی پارٹی کی مایوس کن کارکردگی کا ذکر کرتے ہوئے بخاری نے کہا”پہلے تو میں کارکردگی کو مایوس کن نہیں سمجھتا۔ ضلع ترقیاتی کونسل کے انتخابات تھے، میں نے 12نشستیں جیتیں اور 22ہمارے حمایت یافتہ اُمیدوار جیتے ، برائے کرم یہ یاد رکھیں کہ ہماری جماعت صرف ایک سال پرانی ہے“۔ 24جون کو وزیر اعظم کی صدارت میں نئی دہلی میں جموں وکشمیر کی مین اسٹریم سیاسی جماعتوں کے کل جماعتی اجلاس سے متعلق سوال کے جواب میں الطاف بخاری نے کہا”میٹنگ سے سب سے بڑی توقع تھی کہ مرکز سے ریاستی درجے کی بحالی کی گذارش کرنا تھا اور سبھی جماعتوں کے نمائندگان جوحاضر ِ اجلاس تھے، نے اپنے اپنے انداز میں اِس مسئلہ کو اُٹھایا“۔انہوں نے مزید کہا”میری دیگر سبھی سیاسی جماعتوں سے مخلصانہ اپیل ہوگی، ہم نے سب کچھ کھویا ہے، ایسا نہیں ہے کہ دہلی کچھ کرے گا، صرف اس لئے کہ ہم دہلی گئے ، میں دہلی سے یہ امید نہیں رکھتا کہ وہ ہمیں ریاست کا درجہ دے گا کیونکہ ہم سب وہاں گئے تھے۔ہمیں اس کے لئے اپنا کیس مضبوط کرنا ہوگا۔ ایک دن آئے گا وہ اِس لئے ایسا کریں گے کیونکہ وزیر اعظم اور مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے پارلیمنٹ کے اندر اِس کا وعدہ کیا ہے“۔ یہ پوچھے جانے پر کہ اگر مرکز ریاستی درجہ بحال کرنے سے قبل الیکشن کا فیصلہ کرتی ہے تو کیاجموں وکشمیر اپنی پارٹی ایسی صورت میں انتخابات کے لئے تیار ہے، کے جواب میں بخاری نے کہا”ہم تو چاہتے ہیں کہ انتخابات سے قبل ریاستی درجہ بحال ہو لیکن ہمارا وجود اُن مسائل کی وجہ سے آیا ہے جو ہمارے اپنے لوگوں کو درپیش ہیں اور میرا یقین ہے کہ جب تک زمینی سطح پر جمہوریت بحال نہیں ہوتی ، میرے لوگوں کے مسائل حل نہیں کیے جا سکتے۔اگر جموں وکشمیر میں ریاستی درجہ کی بحالی سے قبل انتخابات ہوتے ہیں تو ہم اس قربانی سے بھی نہیں ہچکچاہیں گے“
