گپکار الائنس نے کہا ہے کہ جموںوکشمیر کا خصوصی درجہ ختم کرنے کے 2سال مکمل کرنے اور اپنی حصولیابیوں کا ڈھنڈورہ پیٹنے کیلئے مرکزی حکومت وائٹ پیپر جاری کرے۔گپکار الائنس ترجمان محمد یوسف تاریگامی نے کہا ہے کہ جو رہنما بار بار یہ دہراتے تھے کہ کشمیر بھارت کا تاج ہے،5اگست کو اس تاج کو زمین بوس کیاگیا، مٹی میں ملادیا گیا۔ انہوںنے کہا کہ’’ 5اگست اب ہماری تاریخ کا سیاہ ترین باب بن چکا ہے وہ اس لئے کہ ہم سے جو وعدے کئے گئے تھے، ان کو پورا کرنے کی دورکی بات ، جوآئینی پوزیشن وضع کی گئی تھی،ا سکو بھی واپس لے لیاگیا، چھینا گیا، ہمارے تشخص پر آنچ آگئی، ہمارے وجود کو خطرے میں ڈالا گیا، بلکہ یہ کہنا مناسب ہوگا کہ جموں کے لوگوں ، کشمیر اور لداخ کے لوگوں کو محروم کیاگیا اُس حق سے جس نے ایک تاریخی حیثیت حاصل کی تھی، ایک ساتھ رہنے کی ،ایک سٹیٹ کی حیثیت، کوڈائون گریڈ کیاگیا، درجہ گھٹایاگیا‘‘۔ تاریگامی نے کہا’’ حکمران آج جشن منائیں گے لیکن میرا ایک ہی سوال ہے کہ اگر کچھ کیاگیا ہو تو ضرور جشن منائیں‘‘۔گپکار الائنس ترجمان نے کہاکہ ملک کے شہریوںکے ساتھ ناانصافیاں کی گئیں، انہیں اپنے حق سے محروم کیاگیا، روزگار کا وعدہ،تعمیر و ترقی ؎کا وعدہ، اچھی سرکار دینے کا وعدہ، امن قائم کرنے کا وعدہ، کشمیری پنڈتوںکو اپنے گھروںمیں واپس لانے کا اعلان، لیکن زمینی سطح پر ایسا کچھ نہیں دکھائی دے رہاہے۔ تاریگامی نے کہاکہ ’’میں تو یہی چاہوں گا کہ حکومت ہند کوآج کے دن اپنی کرنی کا وائٹ پیپرپیش کرنا چاہئے ‘‘۔ انہوںنے کہاکہ وزیر داخلہ امت شاہ نے ایک سوال کے جواب میںکہاکہ ریاستی درجہ کی بحالی تب ہوگی جب جموںوکشمیرمیںنارملسی قائم ہوگی، 2 سال تک نارملسی کا نشان نظر نہیں آرہا ہے ، یہ سرکار خود کہتی ہے ، پھر حاصل کیا کیا؟۔ انہوںنے کہا کہ مناسب یہی ہوگا کہ مرکزی حکومت ملک کے سامنے اپنی کرنی کا ایک خاکہ پیش کرے اور یہ ہمارا مطالبہ بھی ہے ۔ انہوںنے کہاکہ ’ جہاں تک PAGD کا تعلق ہے، ہم مشاورت میں ہے ،ہمارا یہ ماننا ہے کہ یہ چند سیاسی جماعتوں کا سوال نہیں، جموں،کشمیر اورلداخ کا ہر شہری چاہے وہ کسی بھی خیمے میں بٹا ہو، چاہے وہ الگ پلیٹ فارموں پر بھی ہو، آپس میں گلے شکوے بھی ہوں، جموں وکشمیر کے ساتھ انصاف ہو، ہر شہری کی مانگ، ہر شہری کی یہی تڑپ ہوگی‘‘۔ تاریگامی نے کہاکہ آنے والے وقت میں PAGDسول سوسائٹی سے رابطے قائم کرے گی، جموں جاکر کٹھوعہ سے لیکر کشتواڑتک، راجوری پونچھ تک وہاں کے جو لوگ ہے، رابطہ قائم کرنے کی کوشش کرینگے ، ان کی آراء ان کی تنقید یا جو بھی ان کی طرف سے تجاویز ہونگی، ان پر غور ہوگا‘‘۔
