جموں و کشمیر پولیس کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی پی) دلباغ سنگھ نے کہا کہ پاکستان اور اس کی سپانسر ایجنسیاں عسکریت پسندی کو ایندھن پہنچانے کے لیے ڈوڈہ ، کشتواڑ ، راجوری ، پونچھ اورریاسی اضلاع کے کچھ حصوں میں لوگوں کی تلاش میں ہیں۔ڈی جی پی نے ضلع کشتواڑ میں سیکورٹی صورتحال کا جائزہ لینے کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا”ہم جانتے ہیں کہ پاکستان اور اس کی سپانسرڈ ایجنسیاں ایسے لوگوں کی تلاش میں ہیں جو عسکریت پسندی کی سرگرمیوں میں ملوث ہوسکتے ہیں۔ وہ ڈوڈا ، کشتواڑ ، راجوری ، پونچھ اور ریاسی کے کچھ حصوں میں لوگوں کا شکار کر رہے ہیں۔ ہماری پولیس اور خفیہ ایجنسیاں نظر رکھے ہوئے ہیں۔ ہم کریک ڈاؤن کرنے کا طریقہ جانتے ہیں‘‘۔وہ یوم آزادی سے قبل سیکورٹی انتظامات کا جائزہ لینے کے لیے پہاڑی ضلع کے دورے پر تھے۔ ڈی جی پی کے ساتھ اے ڈی جی پی مکیش سنگھ ، ایس ایس پی کشتواڑ ، سینئر پولیس اور فوج کے عہدیدار تھے۔ڈی جی پی نے کہا’’یہ بھی اطلاعات ہیں کہ پاکستان اور اس کی عسکری تنظیمیں جیسے لشکر طیبہ ، حزب المجاہدین، جیش محمد جموں خطے اور کشمیر میں کچھ بڑے عسکریت پسندوں کے حملے کے موقع کی تلاش میں ہیں تاہم ہماری سکیورٹی فورسز چوکس ہیں۔ ہماری پولیس انٹیلی جنس اور سیکورٹی فورسز کی دیگر ایجنسیوں کے ساتھ قریبی رابطہ میں کام کر رہی ہے۔ میں عسکریت پسندوں کے ڈیزائن کو ناکام بنانے کا پختہ یقین رکھتا ہوں‘‘۔انہوں نے کہا کہ جموں و کشمیر میں جماعت اسلامی ، حریت کانفرنس اور دیگر علیحدگی پسند عناصر بہت زیادہ سرگرم ہیں۔ وہ طویل عرصے تک عسکریت پسندی کو برقرار رکھنے کے ذمہ دار ہیں۔ وہ اب بھی کچھ سرگرمیوں کا سہارا لے رہے ہیں تاکہ عسکریت پسند تنظیموں کو آکسیجن دی جا سکے اور جموں و کشمیر میں عسکری ڈھانچے کی حمایت کی جا سکے۔ لیکن ہم ایسے تمام عناصر پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہیں۔انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا”این آئی اے نے پولیس کے ساتھ مل کرایسے عناصر پر بہت بڑی تعداد میں چھاپوں کی منصوبہ بندی کی تھی۔ یہ چھاپے کامیاب رہے ہیں۔ ہم قیمتی آلات اور اطلاعات پر ہاتھ ڈالنے میں کامیاب رہے ہیں جو تفتیش کے لیے مددگار ثابت ہوں گے۔ مستقبل میں اس طرح کے مزید اقدامات کا امکان ہے۔ “سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کے بیان کے جواب میں ڈی جی پی نے ان کا نام لیے بغیر کہا کہ “کچھ لوگوں کے غیر ذمہ دارانہ بیانات دینے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ پولیس ،سیکورٹی فورسز اور دیگر ادارے لوگوں کو ہراساں کرنے کی جرات کرتے ہیں۔ ہم درحقیقت لوگوں کی مدد کرنے کی ہمت کرتے ہیں تاکہ سیکورٹی کا ماحول بنایا جا سکے۔ تاہم جو لوگ عسکریت پسندی کی حمایت اور عسکریت پسندی کو برقرار رکھنے میں ملوث ہیں انہیں نہیں بخشا جائے گا۔ایک اور سوال کے جواب میںڈی جی پی نے کہا کہ: “ہم جماعت اسلامی پر پابندی لگانے کے بعد پہلے ہی بہت بڑی تعداد میں تنظیم کی جائیدادیں ضبط کر چکے ہیں۔ اس طرح کی مزید جائیدادیں ضبط کی جاسکتی ہیں جب وہ (جماعت والے) ان کا استعمال عسکریت پسندی کی ساخت اور عسکریت پسندی کے لیے کررہے ہیں‘‘۔ انہوں نے کہا کہ سینکڑوں جائیدادیں (جماعت کی) ضبط کی جا چکی ہیں۔انہوں نے کہا کہ “پاکستان اور سرحد کے پار سے اس کے سپانسر ایجنٹ کچھ اوور گراؤنڈ ورکرز (OGWs) کو فعال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ انہیں عسکریت پسند بنایا جا سکے۔” دلباغ سنگھ نے کہا کہ پچھلے کچھ عرصے کے دوران 40 کشمیری جنگجوئوں کو قومی دھارے میں واپس لایا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ ان میں سے کئی جنگجو ایسے ہیں جنہیں ‘لائیو’ مسلح جھڑپوں کے دوران واپس لایا گیا ہے۔پولیس سربراہ نے بتایا: ‘جنگجوئوں کا سپورٹ سٹرکچر ابھی بھی سرگرم ہے۔ سپورٹ سٹرکچر میں علیحدگی پسند عناصر بھی شامل ہیں’۔انہوں نے کہا: ‘مختلف ایجنسیوں کی جانب سے سوشل میڈیا کا استعمال کر کے اشتعال انگیزی کا کام جاری ہے۔ اس کے چلتے کچھ بچے گمراہ ہو کر شمولیت کر لیتے ہیں’۔ان کا مزید کہنا تھا: ‘ہماری کوشش رہتی ہے کہ ایسے نوجوانوں کو شمولیت اختیار کرنے کے بعد بھی واپسی کا موقع دیا جائے۔ 40 نوجوانوں کو واپس لایا گیا ہے۔ ان میں سے کئی کو لائیو مسلح جھڑپوں کے دوران ہی واپس لایا گیا ہے’۔ڈی جی پی نے بعد ازاں ادھم پور ضلع میں بھی سیکورٹی جائزہ اجلاس کی صدارت کرکے ضلع میں سیکورٹی صورتحال کا جائزہ لیا۔
