معروف کشمیری پنڈت شاعر و ادیب سرو آنند پریمی: تیس برس بعد لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ سے سر فراز

.سری نگر، (یو این آئی): آخر کار معروف کشمیری پنڈت ادیب و شاعر سرو آنند کول پریمی کی گراں بہا ادبی خدمات کو سرکاری سطح پر پذیرائی حاصل ہوئی اور انہیں یوم جمہوریہ کے موقع پر زائد تین دہائیوں بعد لائف ٹائم اچیو منٹ ایوارڈ سے سر فراز کیا گیا۔

آنجہانی سرو آنند کول پریمی کا نام ان 23 اشخاص میں شامل تھا جنہیں بدھ کے روز یوم جمہوریہ کے موقع پر مختلف شعبہ ہائے حیات میں نمایاں خدمات انجام دینے کے اعزاز میں لائف ٹائم اچیو منٹ ایوارڈ سے نوازا گیا۔بتادیں کہ 65 سالہ سرو آنند پریمی کو اپنے 27 سالہ بیٹے وریندر کول سمیت مئی سال1990 میں مشتبہ جنگجوؤں نے جنوبی کشمیر کے ضلع اننت ناگ میں واقع اپنے آبائی گاؤں میں ابدی نیند سلا دیا تھا۔اس واقعے کے ایک ہفتے کے اندر ان کے اہلخانہ کشمیر سے بھاگ گئے تھے۔

موصوف ادیب و شاعر کے اہلخانہ کا ماننا ہے کہ دیر سے ہی سہی لیکن یہ ایوارڈ ان (پریمی صاحب) کے حب الوطنی اور قوم پرستی کے جذبے کو پروان چڑھانے کے لئے کی جانے والی خدمات کا اعتراف ہے۔سرو آنند پریمی کے فرزند راجندر پریمی نے یو این آئی کے ساتھ گفتگو میں کہا کہ یہ یونین ٹریٹری کے لوگوں کے بالخصوص اور قوم کے لئے بالعموم فخر کی بات ہے۔

انہوں نے کہا: ’میرے والد ایک اعلیٰ پایہ کے ادیب، شاعر، مصنف اور ماہر تعلیم ہونے کے علاوہ امن و بھائی چارے کے بھی علمبردار تھے‘۔ان کا کہنا تھا: ’میرے والد نے سچائی، ایمانداری اور دیگر اعلیٰ انسانی قدروں کی بحالی کے لئے اپنی زندگی نچھاور کر دی‘۔راجندر پریمی نے کہا کہ گرچہ میرے والد کی خدمات کو سرکاری سطح پر دیر سے پذیرائی حاصل ہوئی لیکن آخر کار ان کی خدمات کو تسلیم کیا گیا۔انہوں نے کہا کہ میرے والد کی خدمات کی پذیرائی دوسرے ادیبوں اور شاعروں کے لئے حوصلہ بخش ہے جو قوم و ملک کی خدمات کے لئے اپنے قلم کا استعمال کر رہے ہیں۔ان کا کہنا تھا: ’میں یہ ایوارڈ اپنی والدہ محترمہ، اپنے شہید بھائی اور پوری کشمیر کمیونٹی کے نام وقف کر رہا ہوں اور یہ امید کرتا ہوں کہ جموں وکشمیر حکومت اور مرکزی حکومت کی طرف سے ملی ٹنسی متاثرہ اس خاندان کے ساتھ آگے بھی انصاف کیا جائے گا‘۔

سرو آنند پریمی نے تین کتابیں تصنیف کی ہیں جن میں بھگوت گیتا کا اردو ترجمہ اور رامائن کا کشمیری ترجمہ شامل ہے۔انہوں نے رابندر ناتھ ٹیگور کی شاہکار گیتان جلی کا بھی ترجمہ کیا ہے۔ ان کی بعض تصنیفات و تالیفات ابھی تک شائع نہیں ہوئی ہیں۔اہلخانہ نے جموں وکشمیر کلچرل اکیڈیمی اور ساہتیہ اکیڈیمی سے ان کی کتابوں کو شائع کرنے کی درخواست کی ہے تاکہ انہیں عام کشمیریوں تک پہنچایا جا سکے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں