سری نگر، (یو این آئی): جموں وکشمیر میں جاری سیاسی خلفشار، انتظامی انتشار، نامساعد اور غیر یقینی صورتحال جاری رہنے سے لوگوں کی معاشی بدحالی عروج پر پہنچ گئی ہے جبکہ بے روزگاری او رحد سے زیادہ مہنگائی نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔
ان باتوں اظہار پارٹی لیڈران نے نوائے صبح کمپلیکس میں ایک اجلاس کے دوران اپنی اپنی آراء پیش کرتے ہوئے کیا۔ اجلاس کے شرکاء نے کہا کہ مرکز کے سخت گیر حکمرانوں نے کشمیریوں کیساتھ سوتیلی ماں اور دشمنانہ پالیسی اختیار کررکھی ہے۔ ہندوستان کی آزادی سے لیکر آج تک اس سخت گیر پالیسی کی کوئی مثال نہیں ملتی۔
انہوں نے کہاکہ حکمران ملک اور بیرونی دنیا کو دکھانے کیلئے چاہئے کتنا ہی پروپیگنڈا کیوں نہ کریں لیکن زمینی صورتحال یہ ہے کہ جموں وکشمیر کے تینوں خطوں کے عوام نئی دلی سے نالاں ہیں اور کسی بھی صورت میں 5اگست2019کے غیر جمہوری اور غیر آئینی فیصلوں کو قبول کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ لیڈران نے کہا کہ نئی دلی کو جموں وکشمیر کے زمینی حقائق کو تسلیم کرنا چاہئے اور فوراً سے پیش تر دفعہ370اور 35اے کی بحالی کیساتھ ساتھ یہاں عوامی حکومت کاقیام عمل میں لاکر جمہوریت کو پھر سے پنپنے کا موقع فراہم کیا جائے۔
پارٹی لیڈران نے کہاکہ بیش بہا اور سخت ترین قربانیاں کے بعد ہی جموں وکشمیرمیں جمہوریت اور جمہوری اداروں کا قیام ممکن ہو پایاہے لیکن جس طرح سے اس جمہوریت کو موجودہ دور میں تار تار کیا جارہاہے وہ انتہائی مایوس کُن اور تشویشناک ہے۔ جموں و کشمیر میں اس وقت جمہوریت کو زمین بوس کرکے تاناشاہی پر مبنی افسرشاہی کا راج مسلط کیا گیا ہے، جس میں لوگوں کا کوئی پُرسانِ حال نہیں۔ تمام انتظامیہ ایسے فیصلوں میں مصروف ہیں جو نہ صرف جمہوری تقاضوں کے منافی ہیں بلکہ عوام کُش بھی ثابت ہورہے ہیں۔ جموں وکشمیر کی افسرشاہی اس وقت بھاجپا کی لونڑی بن کر رہ گئی ہے اور ہر ایک کام کیلئے بھاجپا سے پیشگی اجازت طلب کرنا معمول بن کر رہ گیاہے۔