شاہدہ خانم: گجر قبیلے کے ثقافتی ورثے کے تحفظ کے لئے گھر کو میوزیم بنانے والی کشمیری خاتون

سری نگر، شمالی کشمیر کے ضلع بانڈی پورہ کے آری گام گائوں سے تعلق رکھنے والی ایک 25 سالہ خاتون نے گجر قبیلے کے ثقافتی ورثے کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے اپنے گھر کو ہی میوزیم میں تبدیل کر دیا ہے۔

شاہدہ خانم نامی یہ خاتون اپنے قبیلے کے روایتی لباس کو بحال کرنے کے لئے کوشاں ہے۔

انہوں نے یو این آئی کے ساتھ گفتگو کے دوران کہا: ‘میرا مقصد یہ ہے کہ ہمارا گجر بکروال طبقہ بھی ملک میں اپنی شناخت قائم کرے اور دنیا میں دیگر کمیونٹیوں کی طرح ہر شعبے میں آگے بڑھ سکے’۔

شاہدہ نے ابتدائی تعلیم گورنمنٹ گرلز اسکول آری گام سے حاصل کرنے کے بعد اسی گائوں کی ہائر سکنڈری سے بارہویں جماعت کا امتحان پاس کیا ہے اور بعد میں سال 2020 میں گورنمنٹ وومنز ڈگری کالج سری نگر سے گریجویشن کی ڈگری حاصل کی ہے۔

انہوں نے اپنے اس منفرد شوق کے بارے میں کہا: ‘میں نے سال 2016 میں بھوپال میں ایک تقریب ‘لوک رنگ’ میں شرکت کی جہاں مجھے اس بات پر کافی دکھ ہوا کہ ہمارے قبیلے کا کوئی بھی لباس وہاں کہیں بھی موجود نہیں تھا اس سے مجھے کافی تکلیف ہوئی’۔

شاہدہ کہتی ہیں: ‘اسی دن میں نے یہ فیصلہ کیا کہ جو بھی ہمارا ثقافتی ورثہ ہے میں اس کو محفوظ کروں گی میں اس مشن میں کامیاب ہوگئی اور میں نے اپنے ہی گھر میں اس کے لئے ایک عجائب گھر قائم کیا’۔

انہوں نے اپنے اس میوزیم میں اپنے قبیلے کے کئی اہم چیزوں جن میں ثقافتی لباس، روایتی ہیڈ گئر، شال، برتن اور ایک چرخہ شامل ہے، نمائش کے لئے رکھا ہے اور لوگ ان کو دیکھنے کے لئے جاتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے: ‘مقامی لوگ اکثر و بیشتر ان چیزوں کو دیکھنے کے لئے یہاں آتے ہیں تاہم دور دراز علاقوں کے لوگ اور سیاح ابھی یہاں ہمارے ثقافتی ورثے کو دیکھنے نہیں آتے ہیں’۔

شاہدہ گجر قبلے کے ثقافتی ورثے کی قومی و بین الاقوامی سطح پر نمائش کرنا چاہتی ہیں۔

چنانچہ ان کا کہنا ہے: ‘گجر بکروال طبقے کو جموں وکشمیر کی دیگر کمیونٹیوں کے ساتھ آگے بڑھنے کے لئے حکومتی مدد کی ضرورت ہے’۔

انہوں نے کہا: ‘مجھے فی الوقت حکومت کی طرف سے کوئی مدد نہیں ملی’۔
شاہدہ گذشتہ ایک برس سے نور ٹیلرنگ اینڈ سٹیچنگ سینٹر چلا رہی ہیں جہاں وہ اپنے قبیلے اور دوسرے دیہات کی لڑکیوں کو مفت تریبت فراہم کر رہی ہے تاکہ وہ اپنا روز گار خود کما سکیں۔

انہوں نے کہا: ‘اس وقت میں 25 لڑکیوں کو تربیت دی رہی ہوں اور پچھلے بیچ میں اس نے 50 لڑکیوں کو تربیت دی ہے جو اب اپنا روز گار خود کما رہی ہیں’۔

ان کا کہنا تھا: ‘ہمارا قبیلہ اقتصادی لحاظ سے کمزور ہے لہذا میں نے اس قبیلے کی لڑکیوں کو مفت تربیت دینے کا فیصلہ لیا’۔

سرکاری نوکری حاصل کرنے کے بارے میں پوچھے جانے پر شاہدہ کہتی ہیں: میں نے سرکاری نوکری حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن وہ ثمر آور ثابت نہیں ہوسکیں اب میں اپنے میوزیم کی دیکھ ریکھ کر رہی ہوں اور اسی کو بڑے پیمانے پر تیار کرنا چاہتی ہوں’۔

یو این آئی ایم افضل

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں