کشمیر: پیک پروز ٹریکنگ گروپ نئے صحت افزا مقامات کی تلاش میں سرگرم عمل

سری نگر، وادی کشمیر سے تعلق رکھنے والے ٹریکروں کا ‘پیک پروز گروپ’ ( پی پی جی) نامی ٹریکنگ گروپ جموں وکشمیر کی چوٹیوں پر برفانی جھیلوں کی تلاش کے لئے کئی برسوں سے سرگرم عمل ہے۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ گذشتہ کچھ برسوں بالخصوص کورونا وبا کے بعد وادی کشمیر کے نوجوانوں میں ٹرییکنگ کے متعلق دلچسپی بڑھ رہی ہے جس کے نتیجے میں نئے ٹریکنگ گروپ معرض وجود میں آ رہے ہیں جو ٹریکنگ مہموں کا با قاعدگی سے اہتمام کر رہے ہیں۔

سال 2013 میں یہاں صرف جموں وکشمیر مائونٹنیرنگ ہائیکنگ کلب اور الپائن ایڈونچرز تھا جبکہ آج کشمیر میں زائد از دو درجن ٹریکنگ کلب موجود ہیں۔

پیک پروز گروپ کے ایک رکن اور ٹریکر بلال احمد پامپوری نے یو این آئی کو بتایا: ‘جموں وکشمیر میں بے شمار الپائن جھیل موجود ہیں لیکن لوگوں کو ان کے بارے میں ابھی بھی کچھ معلوم نہیں ہے’۔

ان کا دعویٰ ہے کہ 7 رکنی پیک پروز گروپ واحد وہ ٹریکنگ گروپ ہے جو ان گمنام اور لوگوں کی نظروں سے اوجھل جگہوں اور جھیلوں تک پہنچ کر ان کو سامنے لانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔

اپنے ٹریکنگ سفر کی داستان بیان کرتے ہوئے پامپوری نے کہا: ‘ہم نے سال 2017 – 18 کے دوران ٹریکنگ محض تفریح کے لئے شروع کی لیکن کچھ مقامات کو دیکھنے کے بعد ہم قدرت کے محبت کے اسیر ہوگئے’۔

انہوں نے کہا کہ پیک پروز گروپ جس کی سربراہی ڈاکٹر اویس کر رہے ہیں، تشکیل دینے کا مقصد جموں و کشمیر کی چوٹیوں اور گمنام جگہوں کو دنیا کے سامنے لانا ہے۔

موصوف ٹریکر نے کہا: ‘وادی کشمیر میں گمسر جھیل، ناگنندر جھیل، چندن سر جھیل، نندن سر جھیل، ڈاکیار سر جھیل، نچیا جھیل، کھلن ناگ جھیل، زنبشت اور پتالوان جھیلوں سمیت بہت سی ایسی جھیلیں ہیں جو ابھی تک سیاحتی مقامات کی فہرست میں شامل نہیں کی گئی ہیں’۔

اپنی زندگی کے بہترین ٹریکنگ سفر کے بارے میں پوچھے جانے پر ان کا کہنا تھا: ‘یوں تو ہر ٹریکنگ سفر اپنی مثال آپ ہے اور لوح ذہن پر اس کے ان مٹ نقوش مرتب ہوتے ہیں لیکن میرا سب سے یاد گار سفر سونہ مرگ کے ‘بفر سر’ کا سفر ہے’۔

انہوں نے کہا: ‘ہماری ٹیم بفر سر کی تیسری چوٹی جو سطح سمندر سے قریب 43 ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ہے، سر کرنے والی شاید پہلی ٹیم ہے’۔

بلال احمد نے کہا کہ ٹریکر بفر سر کی دوسری چوٹی تک تو پہنچتے ہیں لیکن تیسری چوٹی تک کوئی پہنچتا نہیں ہے۔

انہوں نے کہا: ‘ہماری ٹیم نے سال گذشتہ گریز وادی میں ایک یاد گار ٹریکنگ سفر کیا جب ہم وسطی کشمیر کے ضلع گاندربل کے ناتنگ – گاندربل جھیل تک پہنچے یہ وہ جگہ ہے جہاں گذشتہ قریب چالیس برسوں سے کوئی نہیں گیا ہے’۔

اس سفر کی تفصیل بیان کرتے ہوئے بلال احمد نے کہا: ‘یہ سفر انتہائی دلچسپ مگر کٹھن ترین اور سب سے زیادہ یاد گار سفر تھا اور اس سفر کے لئے ہم نے جموں وکشمیر پولیس کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل وجے کمار سے با قاعدہ اجازت حاصل کی تھی’۔

انہوں نے کہا: ‘ہمارے گروپ نے جنوبی کشمیر کے پہلگام سے سری نگر کے ہارون تک بھی ٹریکنگ کی ہے اس کے علاوہ ہم نے پونچھ کی پہاڑیوں اور مغل روڈ کی بلندیوں کی بھی ٹریکنگ کی ہے’۔

محکمہ سیاحت کے نئے مقامات کو سامنے لانے کے دعوئوں کے بارے میں پوچھے جانے پر موصوف ٹریکر نے کہا: ‘اس کے باوجود جموں وکشمیر میں سینکڑوں ایسے مقامات ہیں جو قدرتی خوبصورتی سے مالا مال ہیں جن کو دیکھ کر انسان دنگ ہو کر رہ جاتا ہے اور ان ہی کے مسحور کن نظاروں کا غلام بن جاتا ہے’۔

انہوں نے کہا: ‘ابھی بھی بے شمار خوبصورت مقامات کو تلاش کرکے سیاحتی نقشے پر لانے کی ضرورت ہے تاکہ اس شعبے کو مزید دوام مل سکے’۔

ان کا دعویٰ ہے کہ جموں وکشمیر میں ایسے جھیلوں کی بھی بڑی تعداد ہے جن کا گوگل نقشے پر بھی کہیں نام نہیں ہے۔

انہوں نے کہا: ‘ہمارا بنیادی مقصد نئی جگہوں، چوٹیوں اور جھیلوں کا تلاش کرنا ہے تاکہ ان کو دنیا کے سامنے لایا جا سکے۔

ان کا کہنا ہے کہ ٹریکنگ سے نہ صرف پوشیدہ مقامات کو سامنے لایا جا سکتا ہے بلکہ اس سے ہمارے سماج میں تیزی سے پھیل رہی منشیات کی لعنت کا بھی مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔

انہوں نے کہا اس لت میں پڑے نوجوان ٹریکنگ کو اپنا کر نجات حاصل کرسکتے ہیں علاوہ ازیں اس کے بسیار دیگر طبی فائدے بھی ہیں۔

یو این آئی ایم افضل

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں