تہران، ایران اور اسرائیل کے درمیان جھڑپوں کے ساتویں دن تہران، اصفہان، البرز اور دار الحکومت کے قریب کرج کے علاقے میں کئی دھماکوں کی آوازیں سنی گئیں۔
دوسری جانب تل ابیب، حیفا اور بیت المقدس میں بھی دھماکے ہوئے، جب کہ ایران کی طرف سے تقریباً 20 میزائل داغے گئے۔ یہ بات آج جمعرات کو العربیہ کے نمائندے نے بتائی۔
نمائندے کے مطابق ایرانی میزائلوں کے داغے جانے کے بعد جلیل، جنوبی اسرائیل اور تل ابیب میں سائرن بجائے گئے۔
دو میزائل تل ابیب کے قریب اور ایک جنوبی علاقے نقب میں گرا، جب کہ بئر سبع کے سوراکو اسپتال پر ایک میزائل نے براہ راست ضرب لگائی۔
اسرائیلی فوج نے بھی اعلان کیا کہ ایران کی طرف سے اسرائیل پر میزائل داغے گئے ہیں اور وہ تل ابیب اور حیفا میں ایرانی میزائلوں کو روکنے کی کوشش کر رہی ہے۔
اس سے قبل، اسرائیلی فوج نے ایرانی شہریوں کو دار الحکومت تہران سے 250 کلومیٹر جنوب مغرب میں واقع آراک کے بھاری پانی کے ری ایکٹر کے آس پاس موجود رہنے سے خبردار کیا، اور علاقے کو خالی کرنے کا مطالبہ کیا۔
اسرائیلی فوج کے ترجمان افیخای ادرعی نے یہ انتباہ ایکس پلیٹ فارم پر ایک پوسٹ میں جاری کیا، جس میں ری ایکٹر کی مصنوعی سیاروں سے لی گئی تصویر شامل تھی جو سرخ دائرے سے گھری ہوئی تھی۔ اسرائیلی بیان میں جس حصے کو سرخ دائرے میں دکھایا گیا، وہ گوگل کی مصنوعی سیاروں کی تصاویر سے حاصل کردہ آراک کی ایٹمی تنصیب سے مطابقت رکھتا ہے، جس میں بھاری پانی کا ری ایکٹر اور بھاری پانی تیار کرنے والا ایک مرکز شامل ہے۔
یہ مقام ماضی میں مغربی دنیا کے لیے تشویش کا باعث رہا ہے کیوں کہ بھاری پانی (یعنی ڈیوٹیریم آکسائیڈ) کو پلوٹونیم کی تیاری کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے، جو ایٹم بم بنانے کا دوسرا راستہ ہے۔ بھاری پانی جوہری ری ایکٹروں کو ٹھنڈا کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے، لیکن اس کے ضمنی پیداوار کے طور پر پلوٹونیم پیدا ہوتا ہے، جسے جوہری ہتھیاروں کی تیاری میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یہ ایران کو ایٹم بم کی تیاری کے لیے یورینیم کی افزودگی کے علاوہ دوسرا راستہ مہیا کرتا ہے، اگر وہ اس کو اپنانے کا فیصلہ کرے۔
ایران نے 2015 میں عالمی طاقتوں کے ساتھ طے پانے والے جوہری معاہدے کے تحت آراک کے ری ایکٹر کو دوبارہ ڈیزائن کرنے پر رضامندی ظاہر کی تھی تاکہ ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلاؤ سے متعلق خدشات کو کم کیا جا سکے۔ سال 2019 میں ایران نے آراک ری ایکٹر کے ثانوی دائرے کو فعال کرنا شروع کیا، جسے اس وقت جوہری معاہدے کی خلاف ورزی نہیں سمجھا گیا، یہ بات ایسوسی ایٹڈ پریس نے بتائی۔
باخبر ذرائع کے مطابق، اعلیٰ امریکی حکام آئندہ دنوں میں ایران پر حملے کے امکان کے پیشِ نظر تیاری کر رہے ہیں۔
رواں ماہ 13 جون سے اسرائیل نے ایران کے مختلف علاقوں پر حملوں کا سلسلہ شروع کیا، جن میں عسکری مقامات، راکٹ لانچنگ پلیٹ فارموں اور جوہری تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا۔
اس کے علاوہ اسرائیل نے درجنوں اعلیٰ ایرانی عسکری کمانڈروں اور کم از کم 10 جوہری سائنس دانوں کو ہلاک کر دیا۔
اس کے جواب میں تہران نے اسرائیل پر میزائلوں اور ڈرونز سے حملے کیے اور مزید حملوں کی دھمکی دی، جو دونوں ممالک کے درمیان اپنی نوعیت کی پہلی براہ راست جھڑپ ہے۔
ایرانی رہبر علی خامنہ ای نے زور دے کر کہا کہ ایرانی قوم ہار نہیں مانے گی، خاص طور پر اس لیے کہ اس نے جنگ کی ابتدا نہیں کی۔ انھوں نے امریکی صدر ٹرمپ کے غیر مشروط ہتھیار ڈالنے کے مطالبے کو “احمقانہ” قرار دیا۔
یواین آئی۔ م س








