افغانستان میں ۹۵ فیصدی لوگ بھوک کا شکار: ورلڈ فوڈ پروگرام

عاصم محی الدین

افغانستان تاریخ کے بدترین مالی بحران کا شکار ہونے جارہا ے۔ ورلڈ فوڈ پروگرام کےطابق ۹۵ فیصدی کے قریب لوگوں کے پاس کھانے پینے کے لے اب کچھ بھی نہیں بچا ے۔ ورلڈ فوڈ پروگرام کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈیویڈ بیسیلے نے بی بی سی کو بتایا کہ افغانستان وہاں کے لوگوں کے لے جہنم بنچکا ے اور یہ ترقی پذیر ممالک کے لے شرم کی بات ے کہ وہ انسانی بنیادوں پر گزا و اجناس یہاں کے لوگوں کے لے فراہم نہیں کررہے ے۔ بیسیلے کے مطابق آنے والے اگلے سردیوں کے 6 مہینے افغانستان کے لوگوں کے لے کافی خطرناک ے اور اگر فوری طور پر امداد نہیں پہنچا دی گئی لاکھوں لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو سکتے ے۔

بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق قحط سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے بچے اور عورتیں ے۔ تاہم پاکستان اور چین کے علاوہ ابھی تک افغانستان میں کسی بھی ملک نے کوئی ریلیف نہیں بھیجا۔ اس سال اگست میں طالبان کی حکومت کے آنے کے بعد دنیا کے بیشتر ممالک نے افغانستان کے ساتھ سفارتی اور سیاسی رابطہ منقطع کیا اور طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے سے انکار کیا۔ امریکہ اور اسکے قریبی اتحادیوں نے طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے سے پہلے ان کے سامنے کھچ شرائط رکھے ہوئے ے جن کے بارے میں ابھی تک طالبان نے کوئی بھی ردعمل جاری نہیں کیا اور بینلاقواممی برادری سے اپیل کرتی رہی کہ ان کی حکومت کو تسلیم کیا جاے۔

انسانی بحران کے پیش نظر بھارت بھی افغانستان میں سردیوں کے شروعات سے پہلے ریلیف کا سامان بھیجنا چاہتا ے اور جس کی رسائی اسے پاکستان سے لینی ہوگی تاہم ابھی تک پاکستان کے وزیر خارجہ نے اجازت نہیں دی ے۔
بھارت پاکستان کے راستے 50000 میٹرک ٹن کے گندم افغانستان بھیجنا چاہتا ے اور رپورٹس کے مطابق ابھی تک پاکستان نے نہ تو راستہ دینے سے انکار کیا اور نہ ہی اقرار۔

وہی دوسری جانب 10 نومبر کو دلی میں ہونے والی ریجینل اسکورٹی میٹنگ میں پاکستان کے بعد اب چین نے بھی دعوت کو ٹھکرا دیا۔ نیشنل سیکورٹی ایڈوایزر اجیت دوول دلی میں ریجنل سیکورٹی ڈیلاگ کی صدارت کررہے ے جس میں روس، ایران, ازبکستان، تاجکستان، اور کرغزستان حصہ لے رہے ے۔ ڈیلاگ کے دوران افغانستان کی سیکورٹی صورتحال کا جائزہ لیا جائے گا اور سوچ وچار کیا جاےگا کہ افغانستان میں طالبان کی سرکار آنے کے بعد خطے میں امن کیسے قائم رکھا جائے۔

پاکستان کے این ایس اے معید یوسف نے پھچلے ہفتے اسلام آباد میں کہا کہ وہ ڈیلاگ میں شرکت اس لے نہیں کررہے ے کیونکہ نریندر مودی کی سرکار نے افغانستان میں کوئی مثبت رول نہیں نبایا اور ہمیشہ حالاتوں کو بھگاڈنے کی کوشش کی۔ چین نے کھچ غیر معمولی مصروفیات کی بنا پر ڈیلاگ میں شامل ہونے سے انکار کیا۔
کابل میں طالبان کی حکومت آنے کے بعد امریکہ نے افغانستان فیڈیرل بنک کے 9.5 بلین ڈالرز کے اثاثے منجمد کردے ے جسے ملک کی معاشی حالت مزید خراب ہو گئی۔ چین نے پہلے ہی ستمبر میں 31 ملین ڈالرز کا مدد کا اعلان افغانستان کے لے کیا ے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں