کابل، (یو این آئی): افغانستان میں طالبان کی حکومت نے صوبہ بلخ میں ایک اسکول کو صرف اس وجہ سے کئی دنوں کے لیے بند کر دیا ہے کہ کچھ طالبات نے اپنے چہرے سے پردہ (حجاب) ہٹا دیا تھا۔
یہ اطلاعات ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ میں دی گئی جو بدھ کو جاری کی گئی۔
رپورٹ میں کہا گیا،’بلخ اور دیگر جگہوں پر کھلے اسکولوں کو سخت ڈریس کوڈ پر عمل کرنے سے انکار کرنے پر بند کرنے کی دھمکی دی گئی ہے‘۔ طالبان نے بلخ میں ایک اسکول کو کئی دنوں کے لیے بند کر دیا کیونکہ کچھ طالبات کے چہرے بے نقاب تھے۔
رپورٹ کے مطابق اسکول کے ایک افسر نے طالبان کے ایک اہلکار کی جانب سے ایک صوتی پیغام شیئر کیا جس میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ ایک پرنسپل نے ایک ٹیچر کو اس کی ’احمقانہ‘ لباس کی وجہ سے برطرف کر دیا اور اسے فوری طور پر بحال کیا جائے۔
لازمی مسلم ہیڈ اسکارف کے بارے میں ایک استاد نے کہا،’حجاب کے سلسلے میں ضروریات دن بہ دن مشکل ہوتی جا رہی ہیں‘۔
استاد نے کہا کہ اگر کوئی طالب علم یا استاد طالبان کے سخت قوانین پر عمل نہیں کرتا ہے تو استاد کو نوکری سے نکال دیا جاتا ہے اور طالب علم کو اس معاملے پر بات کیے بغیر ہی نکال دیا جاتا ہے۔
استاد نے کہا،’ان کے پاس ریکارڈس کرنے اور رپورٹ کرنے کے لیے جاسوس ہیں۔ اگر طلبہ یا اساتذہ اپنے حجاب کے سخت اصولوں پر عمل نہیں کرتے ہیں تو بغیر کسی بحث کے وہ اساتذہ کو برطرف کر دیتے ہیں اور طلبہ کو نکال دیتے ہیں‘۔
ایچ آر ڈبلیو کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ٹیچر نے اپنے اسکول کی اسمبلی کی تصویر شیئر کی۔ اس میں طلبہ اور اساتذہ سبھی نے یونیفارم پہنا ہوا تھا جس سے صرف ان کی آنکھیں نظر آتی تھیں۔
ایک طالب علم نے کہا کہ طالبان کا تازہ ترین حکم یہ تھا کہ ڈھیلی آستین پہنیں لیکن کلائی پر پن لگائیں۔
ایک اور اسکول کی لڑکی نے کہا،’ہمیں بیلٹ پہننے کی اجازت نہیں ہے۔ ہماری کوہنی اور ہماری باہوں کے دائرے کو چھپانے کے لیے ہماری آستین بڑی ہونی چاہیے‘۔
طالبہ نے کہا،’میرے اسکول کی تمام لڑکیاں مانتی ہیں کہ طالبان حکام ہم پر اتنا مشکل اور سختی برتنا چاہتے ہیں کہ ہم اپنی تعلیم خود ہی چھوڑ دیں‘۔