غزہ، فلسطین کی تنظیم حماس نے اعلان کیا ہے کہ وہ قیدیوں کے تبادلے اور غزہ کی پٹی میں جنگ بندی کی تجویز کے حوالے سے توقع کر رہی ہے کہ کل ہفتہ کے روز اس پر اسرائیل کا جواب سامنے آ جائے گا۔ حماس نے کہا کہ وہ موجودہ وقت میں مجوزہ معاہدے کی تفصیلات ظاہر نہیں کرے گی۔ حماس رہنما اسامہ حمدان نے ایجنسی فرانس پریس کو بتایا کہ ہم ان خیالات کی تفصیلات کے بارے میں بات نہیں کرنا چاہتے اور جواب کا انتظار کر رہے ہیں جو غالباً آج یا کل آ جائے گا۔
العربیہ کی رپورٹ کے مطابق اسامہ حمدان نے یہ بھی وضاحت کی اگر جواب مثبت ہوا تو ان خیالات پر تفصیل سے بات کی جائے گی کیونکہ ہم ان نظریات کے نفاذ کے مرحلے میں داخل ہوں گے اور اس میں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔ اسامہ حمدان نے کہا یہ کوئی نئی تجویز نہیں تھی لیکن کچھ خاص نکات تھے جن پر بات کی گئی تھی۔ ہم کسی نئی تجویز یا کسی نئی چیز کے بارے میں بات نہیں کر رہے ہیں بلکہ یہ وہی کاغذ ہے جو منظور کیا گیا تھا اور اسرائیلی فریق نے اس پر اعتراض کیا تھا۔
حماس رہنما نے مزید کہا کہ ہمیں امید ہے کہ امریکی انتظامیہ کا موقف اسرائیلی فریق کو ان نظریات کو قبول کرنے میں مضبوط رہے گا اور اس طرح جنگ روک دی جائے گی۔ دریں اثنا اسرائیلی موساد کے سربراہ ڈیوڈ بارنیا جمعہ کو قطری ثالثوں کے ساتھ بات چیت کے بعد دوحہ سے واپس روانہ ہو گئے۔ اس بات چیت میں غزہ میں جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کے منصوبے پر بات ہوئی۔
ایک ایسے ذریعہ نے جو اپنی شناخت ظاہر نہیں کرنا چاہتا تھا بتایا کہ ڈیوڈ برنیا کی سربراہی میں ایک اسرائیلی وفد غزہ میں جنگ بندی کے حوالے سے قطری ثالثوں سے ملاقاتوں کے بعد دوحہ سے اسرائیل کے لیے روانہ ہوا۔ دوسری طرف ’’چینل 12‘‘ نے رپورٹ کیا کہ موساد کے وفد نے ثالثوں سے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ نیتن یاہو حکومت معاہدے کی تجویز کو منظور کر لے گی۔
ایک سینئر امریکی عہدیدار نے جمعرات کو کہا تھا کہ حماس کی طرف سے پیش کی گئی تجویز میں بہت اہم پیش رفت شامل ہے۔ ہم تبادلے کے معاہدے کے لیے آگے بڑھ سکتے ہیں۔ اب یہ نیتن یاہو پر منحصر ہے۔ انہوں نے کہا کہ غزہ پر ایک معاہدے تک پہنچنے کا ایک حقیقی موقع ہے۔
مصر، قطر اور امریکہ سمیت ثالثوں کی جانب سے غزہ میں جنگ بندی اور 120 اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کے معاہدے کے لیے کوششیں کئی مہینوں سے جاری ہیں۔ حماس کا کہنا ہے کہ کسی بھی معاہدے سے جنگ کا خاتمہ ہونا چاہیے اور یہ معاہدہ غزہ سے مکمل اسرائیلی انخلا کا باعث بننا چاہیے۔ دوسری طرف اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ جنگ میں صرف اس وقت تک جنگ بندی قبول کرے گا جب تک حماس کا خاتمہ نہیں ہو جاتا۔
یواین آئی۔ م س