نوجوان نسل کا مستقبل داﺅ پر

محمد عقیل

کشمیری نوجوانوں کا مستقبل داﺅ پر ہے اور اس کیلئے کون ذمہ دار ہے؟ سکولوں اور کالجوں کا آئے روز بند رہنا ہمیں پتھر کے عہد کی طرف لے جارہا ہے۔ہم ٹیکنالوجی سے گری اس دنیا کے شہری ہیں اور ہمیں اس بات کا احساس کرنا چاہئے کہ ہماری ریاست میں کیا ہورہا ہے؟ کیا ہمیں یہاں دوسرا افغانستان اور نائجیریا بناناہے؟ 10سالہ میری چچیری بہن سے بات کرتے ہوئے اس نے کہاکہ ’ہمارے تعلیمی نظام میں اس وقت کیا ہورہا ہے، تو میں نے اسے شائستگی سے کہاکہ ”آپ کے کہنے کا کیا مطلب ہے“؟ اس نے جواب دیا کہ 2016میں جب جنگجو کمارنڈر برہان مظفر وانی کے مارے جانے کے بعد شورش اٹھی تو حکومت طلاب کو سکولوں میںآنے کیلئے مجبور کررہی تھی جبکہ علیحدگی پسند مکمل بند کرنے کی کال دیتے۔ اس وقت حکومت سکولوں کو بند کرنے کیلئے کہہ رہی ہے۔

اس کی نفسیات پر پڑنے والے اثر نے مجھے یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ یہ تنازعہ ہمارے تعلیمی نظام کو متاثر کررہاہے۔ کب تک ہمارا تعلیمی نظام سیاست کی بھینٹ چڑھتا رہے گا؟ ہماری ریاست میں یہ کس طرح کی جمہوریت ہے جس میں ہم اپنے بچوں کو امن و قانون کے نام پر سکولوںکو جانے نہیں دیتے؟ کیا کہیں اداریاتی جمہوریت ہے؟

جب سکول کھلے ہوتے ہیں اور بچے کلاس روموں میں ہوتے ہیں توہمیں احساس ہوتا ہے کہ معمولات زندگی کی رونق لوٹ آئی۔ گزشتہ سنیچر کو ”میں کالج میں تھا اور ایک ہفتہ کے بعدگیا اور ایسا محسوس ہوا کہ میں ایک ہفتہ کے بعد روبرو ہوگیا“ ۔یہ ہمارے سماج کیلئے ہولناک ہے کہ نوجوان تعلیم سے دور ہورہے ہیںجو ان کیلئے پتھر کے دور کی طرف جانے کے مترادف ہے ۔

ہم اسے قیدو بند کی صورتحال سے بے خبر ہیں جس میں ہم پھنسے ہوئے ہیں، ہماری خواہشات، تصورات، معمولات زندگی جیل میں قید ہے اور یہ خطرناک ہے۔ کسی نہ کسی بہانے کے سبب ہمارا تعلیمی نظام اثرانداز ہے جو سماج کیلئے ایک بہت بڑاخطرہ ہے۔ یہ تباہ کن ثابت ہوسکتا ہے جو ہمیں ذہنی اور سماجی طور پر برباد کرسکتاہے۔ ہمارا سماج اخلاقی اقدار کی بنیادوں پر فروغ پاسکتا ہے لیکن جو ادارے یہ اقدار سکھا رہے ہیں، وہ آئے روز بند ہوتے ہیں۔
میری قابل احترام وزیر اعلیٰ اور وزیر تعلیم سے گزارش ہے کہ کب تک ہم تعلیمی ادارے بند کرکے بناوٹی خاموشی کو یقینی بنایا جائے۔ کیا ہم تعلیم کو سیاست سے الگ کرسکتے ہیں؟

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں