تلوار سے طاقتور قلم

ایک کشمیری سکالر کی انٹرنیٹ پر دل کو مجروح کرنے والی تصاویر وائرل ہوئی۔ معروف علی گڈھ مسلم یونیورسٹی میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری کرنے والے سرحدی ضلع کپوارہ کے نوجوان کی دو تصاویرمنان وانی کی ہیں جن میں وہ ایک اے کے47رائفل ہاتھ میں لئے اور دوسری تصویر یونیورسٹی میں منعقدہ بین الاقوامی سمینار میں شرکت کرنے کی ہیں۔ دونوں تصاویر سوشل میڈیا پر زبردست وائرل ہوگئیں۔ انٹرنیٹ پر وائرل ہوئی منان کی تصاویر کے بارے میں بحث چھڑ گئی کہ اس نے کیوں عسکریت پسندی کا راستہ اختیار کیا ؟ ایک طرف علیحدگی پسند منان کے جنگجو بننے کا الزام بھارت پر مسئلہ کشمیر حل کرنے میں ناکامی کا لگارہے ہیں تو دوسری طرف بھارتی حکومت پاکستان اور علیحدگی پسندوں کو کشمیر میں نامساعد حالات کو بڑھاوا دینے اور نوجوانوں کو بندوق اٹھانے کیلئے اکسانے کاالزام لگارہی ہے۔ نوجوانوں اورخاص کر اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکوں کے بندوق اٹھانے کے معاملہ پر جو بھی سوچ ہو لیکن تلخ حقیقت یہ ہے کہ کشمیر قیمتی زندگیوں کوکھو رہی ہے۔ حال ہی میں سوپور میں ایک واقعہ پیش آیا جس میں ڈیوٹی دے رہے 4پولیس اہلکار باردوی سرنگ دھماکے میں اپنی جان گنوابیٹھے۔ نامساعدحالات کے گراف میں اضافہ کی وجہ سے وادی میں زندگی مشکل بن گئی ہے اور والدین کو اپنے بچوں کی حفاظت کی فکر لاحق ہوئی ہے۔ نامساعد حالات کے سبب نہ صرف جسمانی صدمہ ہوتا ہے بلکہ کنبوں کو جذبانی اور دماغی صدمے سے بھی دوچار ہونا پڑتاہے۔اطلاعات کے مطابق منان کا کنبہ اعلیٰ خاندان ہے اور گھر میں بیشتر افراد پیشہ وارانہ فرائض انجام دے رہے ہیں۔ منان کے روشن مستقبل کیلئے کنبہ کے بہت خواب تھے اور اس کی اعلیٰ تعلیم کے لئے کی گئی حوصلہ افزائی اس کا ثبوت ہے۔ منان نہ صرف خاندان کیلئے بلکہ پورے کشمیرکیلئے بھی سرمایہ ثابت ہوسکتا ۔ جب بھارت آزادی کی جنگ برطانیہ کیخلاف لڑرہاتھا،اس وقت نوآبادیاتی نظام سے لڑنے والے لوگوں کی اکثریت اعلیٰ تعلیم یافتہ تھی۔جنگ آزادی میں شریک ہونے سے قبل پاکستان کے بانی محمد علی جناح سے لے کر مہاتما گاندھی، سرسیداحمدخان نے بیرون ملک تعلیم حاصل کی تھی ۔ نوآبادیاتی نظام کیخلاف پُرتشدد مزاحمت کرنے والوں کوصدیوں میں مشکل سے ہی یاد رکھا جاتا ہے بھگت سنگھ کے بغیر ۔ بھارت کی تاریخ میں ان لوگوں کا ہی غلبہ ہے جنہوں نے پُرامن اور سیاسی طور پر لڑائی لڑی ہے حالانکہ آج کل عالمی برادری بھی تشدد پر مبنی تحریک کی تائید نہیں کرتی اور اسے نکارتی ہے۔ دنیا میں آج کل ایماندار اور مخلص قیادت کا فقدان ہے اورکشمیر میں بھی کچھ ایساہی ہے جس کے سبب 70برسوں سے نامساعد حالات موجودہے۔ کشمیرمیں خواہ علیحدگی پسند یا ہندنواز جماعتوں کی سیاست ہو،دونوں معاملوں میں کوتاہیاں موجود ہیں اور عام لوگ پس رہے ہیں۔ اخلاص اور صحیح سمیت کی غیر موجودگی میں کشمیر کی سیاست وقت کے چلنے ساتھ ساتھ گنجلک ہوتی جارہی ہے۔ زمینی صورتحال جرأتمند لیڈرشپ کی تلاش میں ہے جن میں فیصلہ کن فیصلہ کرنے کا ذہن ہوجو تاریخ کا بوجھ اٹھانے میں یقین نہیں رکھتے ہوں۔ عسکریت پسند کی زندگی کی مدت قلیل ہے اور اس سے نظام میں تبدیلی نہیں لائی جاسکتی ہے،ہر ایک کیلئے موت عیاں ہیں نہ کہ مقصد۔ دنیا میں جو بھی آتا ہے ، اس کوزندہ رہنے کیلئے مقصد ہوتا ہے اور اس کی دین ترقی اورخوشحالی ہوتی ہے۔ منان جیسے نوجوان ہماری کامیابی کے ستون ہیں اور ان کو کھونا کشمیری سماج کیلئے ایک بڑانقصان ہے۔ ایسے نوجوانوں کوسماج نے سب کچھ دیا ہے اوروہ اس کے مقروض ہیں۔نظریاتی اورسیاسی تنازعات ماضی میں اور دنیا کے ختم ہونے تک موجودرہینگے تاہم انسانوں کے خون بہانے کو جوازنہیں بخشاجاسکتا ہے۔ ایسے نوجوان اگر سیاست میں شامل ہوتے ہیں تویہ تبدیلی لانے میں مشعل راہ بنے گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں