جموں وکشمیر میں الیکشنز کو کیوں التواء میں ڈالا گیا ؟

عاصم محی الدین

9 جنوری کو جموں کشمیر میں پنچایت کی معیادد پوری ہونے کے بعد اب نہ یہاں لوگوں کی منتخبہ حکومت موجود ے اور نہ ہی یہاں زمینی سطح پر لوگوں کے چنے ہوے نمایندے۔ اگر اب کوئی منتخبہ لیڈرا ے وہ ضلع اور بلاک سطح کے کونسلز جن کی معیاد بھی آنے والے وقت میں مکمل ہونے جارہی ے۔ اس وقت جموں کشمیر پوری طرح سے ایک ایڈمنسٹریٹو یونٹ کی حیثیت سے چل رہا ے جہاں مرکزی سرکار راج بھون کے ذریعے یہاں کے سیاسی اور انتظامی معاملات سنھبال رہی ے۔
مقامی جماعتوں کی نقطہء چینی کے باوجود نی دہلی جموں کشمیر میں کسی۔ بھی طرح سے انتخابات کرانے کی جلدی میں نہیں ے ۔ سپریم کورٹ کے احکامات کے باوجود ایسا لگ رہا ے شاید 2024 میں بھی اسمبلی کے چناؤ نہیں ہوسکتے ے۔ جموں کشمیر میں انتخابات نہ کرانے پر مقامی سیاسی جماعتیں بھاجپا کو ڈرپوک سمجھ رہی ے اور 5 اگست 2019 کے فیصلے کے بعد ان کا کہنا ے کہ بی جے پی لوگوں کا سامنا کرنے سے ڈر رہی ے اسی لے یہاں انتخابات نہیں کراے جارہے ے۔ کیا بھاجپا سچ میں میدان سے فرار ہونا چاہتی ے یا پھر اس کے پھیچے کوئی لارجر پلان ے جو یہ آنے والے وقت میں عملانا چاہتی ے۔
بھاجپا دنیا کی سب سے بڈی ایک آڈیولاجکل سیاسی جماعت ے جس کے لے جموں کشمیر میں حکومت کرنے سے زیادہ اپنی آڈیولجی کو عملانا ضروری ے۔یہ ایک حقیقت ے کہ آر ایس ایس سے منسلک بھاجپا اقدار کو کمپرومایز کرسکتی ے نہ کہ آڈیولجی ۔آے آج یہ سب جانے کی کوشش کرتے ے۔
بھاجپا کے کشمیر پلان کو سمجھنے کے لے ہمیں سب سے پہلے یہ مان کے چلنا ہوگا کہ اس آڈیولجی کے پھیچے ایک بہت بڈی آڈیولاجکل آرگنائزیشن ے جو ہندوتوا میں یقین رکھتی ے اور اس کا نام آر ایس ایس ے۔
اور اسی جماعت نے 30 جون 2002 کو کرکشیترا میں کشمیر پر ایک قرار داد پا س کی جس میں کچھ خوف ناک انکشافات اور عزم طے پاے گے۔
،5 اگست ،2019 کو اس کے اکثر پوائنٹس پر کاروائی عمل میں لائی گی اور لداخ کو علیحدہ کرکےجموں کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ دفعہ 370 کو منسوخ کرکے یہاں ہمیشہ کے لے جموں کشمیر کو ملک کے آئین کے ساتھ زم کردیا گیا۔اگر چہ مرکزی سرکار کی جموں کشمیر کے حالات کو سدھارنے کے لے یہ پہلا قدم تھا تاہم اس کا پارٹ بی جو ابھی عمل میں لانا باقی ے کو قریباً لوک سبھا انتخابات کے بعد عمل میں لایا جاسکتا ے لیکن اس کےلےبی جے پی کو پارلیمنٹ میں اکثریت کے ساتھ ساتھ ایک سازگار ماحول کی ضرورت ے۔ اس قرارداد کے مطابق لداخ کے بعد جموں خطے کو الگ کرکے ریاست کا درجہ دینا جس میں مسلم اکثریتی علاقے جیسے راجوری، پونچھ اور ڈوڈہ کو ساتھ ملانا ے۔ اے بی کے یعنی اکھل بھارتیہ کریا کاری منڈل کی اس ریزولوشن کے مطابق یہ تینوں اضلاع مسلم اکثریتی ہونے کے باوجود حبلوطنی کا جزبہ رکھتے ے جبکہ پاکستان کے ساتھ ملے ہوے علیحدگی پسند جماعتوں نے پورے کشمیر کے ماحول کو خراب کیا ہوا ے اور اس کا پرمیننٹ سلویشن یہی ے۔ اس پانچ نقاتی قرارداد کی اکثر ڈیمانڈس پوری ہوچکی ے۔ جیسا کہ لداخ کو ایک علیحدہ یو ٹی بنانا۔ ویسٹ پاک ریفوجیس کو شہریت اور ووٹ کے حقوق دینا اور دفعہ 370 کو منسوخ کرنا۔ اب اس کا آخری مرحلہ بی جےپی اور آر ایس ایس طے کرنا ے جس میں جموں کو ایک علیحدہ ریاست بنانا ے۔ تاہم اس قرار داد میں کشمیر کے ۔مستقبل کو لیکر کوئی بھی بات نہیں کی گی ے جبکہ اس بات پر زور دیا گیا ے کہ کشمیر میں نیشنلسٹ اور بھارت کے آئین پر یقین رکھنے والوں کو حمایت کی جاے گی اور ہر وہ کوشش کی جاے گی جسے علحیدگی پسند سوچ کو پوری طرح سے ختم کردیا جاےگا
اس ریزولوشن کے بعد 3 مارچ 2004 کو جموں کشمیر اسمبلی نے ایک ریزولوشن وایس نوٹ کے زریعے پاس کی۔ یہ قرارداد سی پی ایم ایم کے لیڈر محمد یوسف تاریگامی نے اسمبلی میں انٹریڈوس کی۔ ریزولوشن میں بغیر کسی کا نام لیتے ہو کہا گیا تھا کہ کچھ عناصر جموں کشمیر کو مزہب اور کلچر کی بنیاد پر تقسیم کرنا چاہتے ے لہزا یہ اسمبلیئ کسی بھی ایسی کوشش کو تصلیم نہیں کریگی۔ اور اگر مرکزی سرکار کی طرف سے اس طرح کا کوئی اقدام اٹھانیا گیا تو اسے پہلے جموں کشمیر اسمبلی سے منظوری ہونی چاہیے ۔ جموں کشمیر نے پچھلے کی دہائیوں سے پاکستان کی طرف سے ریاست میں دہشتگردی کو سپورٹ کرنے کے باوجود مزہبی رواداری اور بھای چارے کو قائم رکھا۔ لہزا اس ریاست کے لوگ اس طرح کی کسی بھی کوشش کو ناکام بنانے کی ہرممکن کوشش کرینگے جس کے تحت انہیں مزہب اور ریجن کے نام پر بانٹا جاےگا۔
اب جبکہ نہ اسمبلی ے اورر نہ ہی کوئی سیاسی مخالف میدان میں تو بی جے پی کو پلان بی کو جموں وکشمیر میں عملانا کے لے کیسے روکا جاسکتا ے جب کہ اس وقت چین اور پاکستان ملک کی سلامتی کے لے ایک بڈا چلینج ے اور کشمیر ایک سٹرٹجیک زون ے جو ملک کے دشمنوں کا دشمنی نبھانے کے لے پہلا پڈاو ہوگا ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں