کشمیر میں عیسایت اور مسیحاؤں کے سماجی کام

فلسطین اور اسرائیل کے ساتھ ساتھ اگر کوئی جگہ دنیا میں ے جہاں پر مزاہب پروان چھڈے ے تو وہ کشمیر ے۔ اس کی تاریخ پر نظر ڈالی جاے تو آپکو پتا چلے گا کہ دنیا کے تین بڈے مزاہب یہاں پر پروان چھڈے ے جن میں ہندواعظم، بدھمت اور اب اسلام ے۔
یہ سرزمین ان مزاہب کو پھیلانے اور اپنانے کے لے کافی زرخیز رہ چکی ے۔ لیکن اس کے باوجود یہاں پر عیسایت کو لوگوں نے قبول کیوں نہیں کیا باوجود اسکے کہ یورپ سے آے ہوے عیسایوں نے یہاں آکر کافی سارے سماجی کاموں میں حصہ لیااور ایسا انفراسٹرکچر تیار کیا جسے آج تک لوگ فایدہ اٹھا رہے ے۔ ان سب چیزوں پر ہم آج بات کرینگے اور آپکو یہ بھی بتاینگے کہ پہلی بار کب اور کونسے عیسائیوں نے کشمیر کی سرزمین پر قدم رکھا اور آخر یہ یہاں پر عیسایت کو پھیلانے میں ناکام کیوں ہوے۔
1854 میں پہلی بار کرشچن مشینری کے لوگوں نے کشمیر کی سرزمین پر اپنا قدم رکھا جب ریٹائرڈ کرنل مارٹن پشاور سے اور روبوٹ کلرک دو مزید پنجابی عیسائیوں کے ساتھ کشمیر وارد ہوے۔ اور اسکے بعد پھر کرشچن برادری سے مزید لوگ 1862 میں کشمیٖر آے۔ تاہم کرشچن مشینری کا پرمیننٹ مشن 1864 میں کشمیر میں شروع ہوا جس کی شروعات کے ساتھ ہی مہاراجہ رنبیر سنگھ نے گورنر جنرل لارڈ ڈلہوزی سے ایک آرڈر پاس کروایا جس کے تحت تمام ان سیاحوں کو جو یورپ سے تعلق رکھتے ے کو انتباہ کیا گیا کہ وہ سردیاں شروع ہوتے ہی کشمیر کو چھوڈ دے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کے لے چار مخصوص راستوں کو منتخب کیا گیا جہاں سے وہ کشمیر کے اندر داخل ہوسکتے تھے۔
مہاراجہ کو ان لوگوں پر پہلے سے ہی شک تھا کہ ان کا کشمیر میں آنا جانا کسی نہ کسی طرح سے مشینری کام کے ساتھ منسلک ے۔ اگر چہ ان کے تعلقات انگریزوں کے ساتھ بہتر تھے تاہم وہ بلکل بھی اس بات سے خوش نہیں تھے کہ ان یورپی لوگوں کا آنا جانا کشمیر میں رے۔ اسی لے انہوں نے ان کی آمد پر ان کے گھومنے اور کام کاج پر اپنی سیکورٹی اور انٹلیجنس کے لوگوں کو تعینات کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ کشمیر میں رکنے کے لے شہر سے باہر کھچہ مخصوص جگے رکھی گی اور انتباہ کیا گیا کہ وہ مقامی لوگوں سے ملنے جلنے سے گریز کرے۔
اسی پابندی کی وجی سے کشمیٖر میں ہاوسبوٹز کا قیام بھی آیا۔ اس پر میں نے ایک تفصیلی ویڈیو بنائی ے جس کا لنک آپکو ڈیسکرپشن میں ملے گا۔

مشینری سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے بھی برصغیر میں عیسائیت کو پھیلانے کے لے کشمیر کا چناو اس کی جغرافیہ اور لوگوں کی معاشی حالات کو دھیک کر کیا تھا۔ ان کا خیال تھا کہ کشمیر میں پڈاو رکھ کر یہ آسانی سے پورے برصغیر میں اپنے مزہب کو پھیلا سکتے ےاور کشمیر کے لوگ جو لا چاری، غربت اور بنیادی سہولیات کے مارے ہوئے ے کو مفت میڈیکل فیسلٹیز، تعلیم اور روزگار کے مواقع فراہم کرکے یہ آسانی سے عیسایت کو قبول کرینگے۔ اور یہ اندازہ ان کا کی نہ کی سچ بھی نکلا۔ مور کرافٹ جب انویسی صدی کے آغاز میں کشمیر آگے تو انہوں نے اپنی کتاب میں لکھا، میں مطمئن ہو پورے برصغیر میں کشمیر جییسی جگہ کی نہیں مل سکتی ے جہاں سے عیسایت کا پرچار موثر انداز میں کیا جاسکتا ے۔
اگر چہ مہاراجہ زاتی طور پر کشمیر میں مشینری مشن کے خلاف تھے تاہم مقامی لوگوں نے ان کے ساتھ تعلق خود بخود بھڈانا شروع کیا۔ حکومت کی بندشوں کے باوجود مشینری کے لوگوں نے 1864 میں پہلا مکان سرینگر میں فرنچ شوال مرچنٹس کے زریعے کرایا پر لیا۔ اس گھر میں جب روبوٹ کلرک اور اور ان کی اہلیہ داخل ہونے لگے تو لگبگ 1500 لوگوں کا ہجوم اکھٹا ہوگیا اور اس مکان کو نظر آتش کر نے لگے اور پھر اس مکان پر پھتر بازی بھی کردی گی۔ لیکن ہار نہ ماننے والے روبوٹ نے اسی سال سرینگر میں کرشچن مشینری اسکول کو قایم کیا , سرکار نے پولیس کے زریعے لوگوں کو دھمکی دی کہ اگر کوئی بچہ اس اسکول میں داخلہ لے رہا ے تو اس کے والدین کو گلگت کی طرف جلاوطن کیا جاے گا۔ اسی سال کے می مہینے میں روبوٹ کلرک نے ایک ڈسپنسری سری نگر میں قایم کی۔ اس ڈسپنسری پر سرکار کی بندشوں کے باوجود لوگ قطاروں میں نظر آنے لگے ۔ اس بنیادی ڈھانچے کو قایم کرنے کے بعد مشینری کے لوگوں نے راحت کی سانس لی اور اپنی سرگرمیاں مختلف سطح پر شروع کردی۔ مشینری کی طرف سے تعلیم اور طبعی سہولیات لوگوں کو مفت فراہم کر نے کے بعد انہوں نے کشمیریوں کے دلوں میں اپنی جگہ بنالی۔ تاہم مہاراجہ کے لےیہ چیز پریشانی کا باعث بننے لگی جسکی وجہ سے سرکار نے پہلی ڈسپنسری عام لوگوں کے لے 1870 میں کھول دی۔
مشینری کی مقبولیت بھڈتی گی اور مہاراجہ بھی اپنی مجبوریوں کی وجہ سے ان کے ساتھ اب تھوڈا نرمی اختیار کرنے لگا اور 1874 میں مشن اسپتال کے لے رستم گھڈی میں جگہ کا انتخاب کرکے ایک اسپتال بنایا گیا جسے درگجن ہوسپٹل کے نام سے پھر جانا جاتا تھا اسکے علاوہ ان کی سروسز کو دیکھ کر سالانہ وظیفہ اور تمام سہولیات اس اسپتال کو مہاراجہ کی طرف سے ملنی شروع ہوگی۔
1864 تک کشمیر میں چار لوگوں نے عیسائیت کو قبول کیا تھا جن میں سے ایک کو اسکول میں ٹیچر کے طور پر تعینات بھی کیا گیا۔ سی ایم ایس اسکول کے قایم کرنے کے بعد اس کے پرنسپل ٹینڈل بسکو نے ایک سوشل ورکرز سٹوڈنٹس کاڈر کی تشکیل دی جو اسکول اور شہر کی سڈکوں ، کوچو اور عوامی جگہوں کی والنٹری بنیادوں پر صاف صفائی کا کام کیا کرتے تھے۔ ہندو برادری کے لوگ یہ دیکھ کر آگ بگولہ ہوگئے اور ٹنڈل بسکو پر الزام لگایا گیا کہ یہ برہمن زاتی کے بچوں کو گندے کام کرنے پر مجبور کررہا ے جو سراسر توحین ے۔ اس کے تو ڈ کے لے سرکار نے ایک ہندو اسکول بلکل اس کے سامنے کھڈاکیا ۔ یہ اسکول انی بیسنت نے قایم کیا جو تھیوسپکل سوسائٹی آف انڈیا کی صدر تھی۔ اس اسکول کے قایم ہونے کے بعد صرف پندرہ دنوں میں 300 طلباء نے سی ایم ایس کو چھوڈ دیا لیکن بسکو نے ہمت نہ ہاری اور کچھ وقت کے بعد یہ تمام بچے اس اسکول میں داخلہ کے لے واپس آگے۔ اس دوران اس اسکول میں ایک طلباء نے یہاں پر عیسایت قبول کی جس کا نام سایمل بکال رکھا گیا۔ جب یہ خبر لوگوں تک پہنچ گی تو سینکڑوں لوگوں نے ڈی ایم ایس اسکول کا محاصرہ کیا اور کہا کہ مزہب تبدیل کر نے پر اس نوجوان کو ان کے حوالے کیا جاے تاہم نہ انہوں نے ہار مان لی اور نہ ہی اسکول اتھارٹی نے انہیں لوگوں کے حوالے کیا۔
بےشمار خدمات اور ماڈرن ایجوکیشن کی بنیاد رکھنے کے باوجود مشینری کے لوگ کشمیر میں عیسائیت کو پوری طرح سے پھیلانے میں ناکام رہے ۔ مہاراجہ رنبیر سنگھ اور مقامی مزہبی ادارے جس میں ہندو اور مسلمانان شامل ے نے جی توڈ کوشش کی کہ مشینری کا مشن کشمیر میں ناکام رہے۔ ہندو سبھا اور مسلم انجمنوں کا قیام بھی اسی لے عمل میں لایا گیا۔ اور تمام ان ہندوں اور مسلمانوں کو جنہوں نے عیسائیت قبول کہ تھی کو اپنی برادری کے لوگوں نے پرازیکوٹ کیا جسے عام لوگوں نے ان مشینری اداروں سے دوری بنانا شروع کردیا۔
اس سب کے باوجود اگر کشمیر کی معیشت کی بات کرے تو یورپی ممالک سے آنے والے لوگوں کا اس پر کافی اثر پڈا اور سرینگر شہر میں رہنے والے لوگوں نے بھی اپنے دکانوں اور کاروباری اداروں کے نام عیسایت اور یورپی نام رکھنا شروع کردیا جسے یہ عیسای لوگ ان اداروں پر جاکر خریداری کرنا پسند کرتے تھے ۔ ان ناموں میں ابھی بھی بہت ساری مشہور دکانیں سرینگر میں موجود ے۔ جیسا کہ Suffering mosses, Sunshine Ally, Anemeda, Buckingham Palace وغیرہ جیے شامل ے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں