ویڈیو: جموں کشمیر میں بچوں کی جنسی زیادتی سے حفاظت کےلئے قانون کیوں نہیں؟؟

رضوان سلطان:

سمبل عصمت دری معاملے میں بانڈی پورہ چائلڈ ویلفیر کمیٹی کی مانگ کے بعد ملزم کے خلاف پاکسو یعنی بچوں کی جنسی جرائم کی حفاظت کے تحت کیس درج کیا گیا ہے ۔

تین سالہ بچی کےساتھ کی گئی عصمت دری کے بعد چائلڈ ویلفئر کمیٹی نے پولیس کو کہا تھا کہ وہ ملزم کے خلاف کیس ر نبیر پینل کوڈ کے بجائے پاکسو کے تحت درج کرے ۔

اب سوال یہ ہے کہ آج تک ریاست میں پاکسو جیسا قانون کیوں نہیں بنا ۔ جس سے کمسن عصمت دری کا شکار بچیوں کو انصاف مل سکے ۔

پاکسو ایکٹ 2012 میں پورے بھارت میں سوائے ریاست جموں کشمیر کے لاگو کیا گیا تھا ۔ جو بچوں کی جنسی جرائم ، جن میں جنسی حملے ، جنسی ہراساں اور فحش سے حفاظت کےلئے بنایا گیا اور اس میں18سال کم عمری متعین کی گئی ۔

اسکے بعد گزشتہ سال کھٹوا میں آٹھ سال کی بچی کےساتھ ہوئی عصمت دری اور قتل کے بعد اور اس سے پہلے بچوں کے ساتھ پیش آئے جنسی زیادتی کے واقعات کے بعد حکومت پاکسو ایکٹ میں مزید ترامیم کرنے پر مجبور ہو گئی ۔

ان ترامیم میں 12سال سے کم عمر کی بچی کے ساتھ اجتماعی ریزی کے جرم میں موت کی سزا یا عمر قید کی سزا ہو سکتی ہے ۔
دوسری ترمیم میں 12سال سے کم عمر کی لڑکی کےساتھ عصمت دری میں ملزم کو موت کی سزا عمر قید یا بیس سال کی قید ہو سکتی ہے ۔
16 سال سے کم عمر کی لڑکی کے ساتھ اجتماعی زیادتی میں ملزمان کو تاعمر قید ہو سکتی ہے .

جبکہ مذکورہ عمر کی لڑکی کساتھ جنسی زیادتی میں ملزم کو بیس سال جیل جو کہ پہلے دس سال تھی ہو سکتی ہے اور زیادہ سے زیادہ عمر قید کی سزا بھی ہو سکتی ہے
خواتین کے ساتھ عصمت دری کے معاملے میں ملز م کی سزا سات سے دس سال کےلئے بڑھا دی گئی ہے جو کیس کی نوعیت کو دیکھ کر عمر قید میں بھی تبدیل ہو سکتی ہے ۔

جبکہ مزید ترامیم میں میں12سال سے کم عمر کی لڑکی کے ریپ کے الزام میں گرفتار کیا گیا شخص کو Anticipatory Bail نہیں دی جا سکتی ۔

اسکے بعد ریاست سے بھی وکلاء کی جانب سے پاکسو قانون کی طرح بچوں کی جنسی زیادتی کے حوالے سے قانون بنانے کی مانگ کی گئی ۔۔
تب اپریل 2018کو تب کی بھاجپا پی ڈی پی سرکار نے کی کابینہ میں فوری طور جموں کشمیر پرٹیکشن آف چائلڈ فار سیکچول وائلنس آرڈیننس لایا ۔

جس کے تحت وہیں سزایئں ملزمان کے لئے رکھی گئی جو کہ مرکز نے پاکسو ایکٹ میں رکھی ہیں اور جبکہ تحقیقات 2 ماہ میں مکمل کرنے کے علاوہ چھ ماہ میں سماعت پوری ہونی چاہئیے ۔

لیکن جون میں سرکار ٹوٹنے کے بعد یہ آرڈیننس قانون نہیں بن سکا ۔ اور آرڈینس کی میعاد زیادہ سے زیادہ چھ ماہ کےلئے ہوتی ہے ۔ جو کہ گزشتہ سال اکتوبر میں ہی ختم ہو گئی تھی ۔ اور تب سے وادی میں بچوں کے ساتھ عصمت دری کے لئے کوئی قانون ہی نہیں ہے ۔

اگرچہ پاکسو قوانین کے تحت متاثرہ لڑکی یا بچی کا نام ظاہر نہیں کیا جا سکتا ،لیکن وادی میں سوشل میڈیا پر اور کچھ میڈیا اداروں نے نام بھی اور تصاویر کا بھی استعمال کیا ہے ۔ دوسری طرف جرم کے کیسوں میں جہاں ثبوت کا بوچھ استغاثہ پر ہوتا ہے وہیں پاکسو کے تحت ملزم تب تک مجرم ہے جب تک وہ اپنے آپ کو بے گناہ ثابت نہ کرے ۔

این سی آر بی رپورٹ کے مطابق بھارت میں2015 میں پاکسو کے تحت 11 ہزار جنسی زیادتی کے مقدمے درج کئے ھگئے تھے ، اسی طرح سے2016 میں یہ بیس ہزار تک پہنچ گئے

کیا آپ کو لگتا ہے ریاست میں بھی پاکسو جیسا قانون بننا چاہیے ، کمنٹ میں ضررو بتائے ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں