درابو کی برخواستگی، مشن مکمل

عاصم محی الدین

گزشتہ ہفتہ ایک بڑی سیاسی تبدیلی کے دوران جموں و کشمیر کی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے ڈاکٹر حسیب درابو کو کابینہ سے برطرف کیا جسے طاقتور وزیر خزانہ تصور کیا جاتا تھا اور انہوں نے ہی بھارتیہ جنتا پارٹی کے جنرل سیکریٹری رام مادھو سے ایجنڈآف الائنس مرتب کیا تھا۔ ڈاکٹر درابو نہ صرف پی ڈی پی سرپرست و سابق وزیر اعلیٰ مفتی محمد سعید کے قریبی تھے بلکہ وہ پی ڈی پی اور بی جے پی کے درمیان واحد رابطہ تھا اور بی جے پی کی اعلیٰ قیادت اورمخلوط حکومت میں دیگر مختلف پارٹی لیڈران کے ساتھ اچھی سوجھ بوجھ تھی۔
مفتی محمد سعید نے حسیب درابو کو جموں وکشمیر کی سیاست میں لایا اور انتخابات میں حصہ لینے کیلئے حوصلہ افزائی کی اور ان کی حکومت کیلئے وزیر خزانہ بننے کی راہ ہموار کی۔ جب پی ڈی پی نے بی جے پی کے ساتھ مخلوط حکومت تشکیل دی ، درابو کو وزارت خزانہ کے قلمدان کی ذمہ داری اُس وقت سونپی گئی جب 2014میں تباہ کن سیلاب کے بعد تعمیر نو کیلئے ریاست کوکافی مالی مدد کی ضرورت تھی ۔

درابو کو کشمیر پر دیئے گئے متنازعہ بیان سیاسی مسئلہ کی بجائے ’سماجی مسئلہ‘قرار دینے کے بعد برخواست کیاگیا۔ بیان کی وجہ سے پی ڈی پی کی اعلیٰ قیادت بشمول جموں وکشمیر وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کو خفت کا سامنا کرنا پڑا۔ پی ڈی پی کے قیام کے وقت سے ہی پارٹی کا موقف ہے کہ کشمیر ایک سیاسی مسئلہ ہے جسے ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ٹھوس مذاکرات سے ہی حل کیا جاسکتا ہے۔والد کے انتقال کے بعد وزیر اعلیٰ بننے سے ہی محبوبہ مفتی نے ہمیشہ ہندو پاک اور مزاحمتی خیمہ کے ساتھ مذاکرات کی وکالت کی تاہم ابھی تک ثمر آور نتائج برآمد نہیں ہوئے ہیں۔
کشمیر کو سماجی مسئلہ قرار دینے کے بیان نے نہ صرف پی ڈی پی میں کھلبلی مچا دی بلکہ ہند نواز اور علیحدگی پسندجماعتوں کے شدید حملوں کا بھی نشانہ بننا پڑا۔ درابو کے علاوہ ،پی ڈی پی کے 2وزرائ، وزیر تعلیم الطاف بخاری اور یوتھ سروس اینڈ سپورٹس کے وزیر عمران رضا انصاری بھی اُس تقریب میں شامل تھے ، جس میںدرابو نے یہ تبصرہ کیا تھا حالانکہ انہوںنے درابو کا کوئی دفاع نہیں کیا، یہ سماجی بہبود کے وزیراور بی جے پی کے اتحادی سجاد لون اور بارہمولہ کے رکن قانون سازیہ جاوید بیگ تھے جنہوںنے درابو کا دفاع کیا باقی تمام نے سابق وزیر خزانہ کو کشمیر کو سماجی مسئلہ قرار دینے پر تنقید کی۔

گزشتہ ہفتہ نئی دہلی میں ’کشمیر:آگے بڑھنے کا راستہ‘ (Kashmir: The Way Forward)کے موضوع پر درابو کہا تھا کہ ’کشمیر کو ایک تنازعہ کی ریاست اور سیاسی مسئلہ‘ سے نہ دیکھا جائے، یہ ایک ایسا معاشرہ ہے جسے سماجی مسائل کا سامنا ہے، ہم اپنی جگہ بنانے کی کوشش کررہے ہیں اور ہم ایسے عمل سے گزر رہے ہیں جس طرح دیگر ممالک گزر رہے ہیں‘۔ ”یہ (جے اینڈ کے) ایک سیاسی مسئلہ نہیں ہے جہاں تک میں دیکھتا ہوں، یہ گزشتہ50یا 70برسوں سے سیاست کی باتیں کرکے غلط درخت کو نشانہ بنا رہے ہیں، سیاسی صورتحال میں کبھی بہتری نہیں آئی ہے، ہمیں سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے کہ یہ ایک ایسا سماج ہے جس کو خود اپنی تلاش میں ہے‘۔

بیان دینے کے بعد درابو کو بیان واپس لینے کیلئے کہا گیا جبکہ پی ڈی پی نے انضباطی کارروائی کرتے ہوئے انہیں خط بھیج دیا۔ پی ڈی پی ذرائع کے مطابق درابو کے بیان واپس نہ لینے اورکوئی جواب نہ دینے کے بعدمحبوبہ مفتی نے سینئر ساتھیوں سے مشاورت کے بعد انہیں وزیر اعلیٰ نے برطرف کیا ۔ کسی نے بھی درابو کا دفاع نہیں کیااور ان کےخلاف سخت کارروائی چاہی اورپارٹی کےلئے مسائل کیلئے پیدا کرنے کیلئے انہیں واحد شخص ذمہ دار قراردیا۔

پی ڈی پی نائب صدر، جو وزیر اعلیٰ کے ماموں ہیں، نے کہاکہ ان کی پارٹی جموں وکشمیر کو سیاسی مسئلہ تسلیم کرتی ہے۔ ” تشکیل کے وقت سے ہی پارٹی کی انتھک کوششیں ہیں کہ مسئلہ کو افہام و تفہیم اورمذاکرات کے ذریعہ داخلہ اور خارجی سطح پر حل کیاجائے‘۔ مدنی نے کہاکہ یہ بدقسمتی تھی کہ برصغیر میں چند طاقتیںمسئلہ کوصرف انتظامیہ کے زاویے سے دیکھ کر عوامی خواہشات کو زندہ رکھنا چاہتے ہیں۔
سابق وزیر خزانہ حسیب درابو نے اپنے موقف کا دفاع کرتے ہوئے ذرائع ابلاغ کو ایک خط شائع کرنے کیلئے جاری کیا جس میں انہوںنے کہاکہ اس کا خطاب پارٹی کی ’کشمیر کی سیاسی پالیسی‘ کیخلاف نہیں تھا۔ انہوںنے کہاکہ انہیں وضاحت کرنے کا موقعہ نہیں دیا گیا اور ذرائع ابلاغ کے ذریعہ ان کی برطرفی کی جانکاری دی گئی جو کہ دردناک تھا۔

درابو نے کہاکہ انہوںنے یہ کوشش کی کہ کشمیرنہ صرف ایک سیاسی مسئلہ تھا جسے بھارت اور آنے والی مرکزی و ریاستی حکومتوں کو حل کرنا چاہئے بلکہ یہ ایک سماجی معاملہ بھی ہے جسے سول سوسائٹی کی سطح پر بھی حل کرنے کی ضرورت ہے۔

’جنہوں نے میری تقریر سنی یا تصب کے بغیر پڑھینگے، وہ یہ جان سکتے ہیں کہ میںہماری خواہشات اور خود کو سمجھنے کا ذکر رہا تھا ، حتی کہ میں پی ڈی پی کے نظریہ کو منتخب حاضرین کے سامنے لارہا تھا‘۔ درابو نے کہاکہ وہ پی ڈی پی کے سیلف رول دستاویز بنانے والے گروپ کا حصہ تھے، ’جہاں تک میری سوچ اور علم کا تعلق ہے، پی ڈ پی کے سیاسی موقف کا مخالف نہیں ہوسکتا،نہ ہی اس کی ساخت کو مجروح کرسکتا ہوں، پی ڈی پی کے سیاسی فلسفے اور افہام و تفہیم کا حصہ ہوں“۔
انہوں نے کہا کہ’ نئی دہلی سے واپسی کے بعد انہیں برطرفی کی خبرذرائع ابلاغ سے ملی اور پی ڈی پی کے نائب صدر سرتاج مدنی کا بیان دیکھا جس میں کہا گیا کہ میں اپنے بیان سے منحرف ہوجاﺅں‘۔ انضباطی کمیٹی کے چیئرمین عبدالرحمان ویری کی طرف سے شام کو رہائش گاہ پر خط ملا جس میں کہا گیاکہ میں دیئے گئے بیان کی وضاحت کروں ، جس کی وجہ سے پارٹی کی ساخت کو زبردست نقصان پہنچا ہے‘۔

درابو نے کہاکہ برطرفی کے بعد وہ وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی سے ملنا چاہتے تھے ، ’سوموار کی صبح میں نے ویری صاحب سے بات کی اور انہوںنے مشورہ دیا کہ مجھے پارٹی صدر و وزیر اعلیٰ سے بات کرنی چاہئے، میں نے نئی دہلی میں وزیر اعلیٰ کی رہائش سے رابطہ کیا تاہم مجھے بتایا گیا کہ وہ مصروف ہیں اور 10منٹ بعد واپس رابطہ کرینگی،جو کبھی نہ ہوسکا‘۔ اگرچہ بی جے پی اس فیصلہ سے خوش نہیں ہے تاہم معاملہ کو پی ڈی پی کا اندرونی معاملہ قرار دیا لیکن اس کی قیادت نے کہا کہ درابو نے کوئی متنازعہ بیان نہیں دیا اور بی جے پی سمجھتی ہے کہ کشمیر ایک سیاسی مسئلہ نہیں ہے اور یہ 1947میں حل کیا گیا ہے۔ بی جے پی کے ریاستی جنرل سیکریٹری اشوک کول نے کہاکہ اگر کوئی معاملہ ہے تو وہ پاکستانی زیر انتظام کشمیر کا ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ پی ڈی پی میں سیاستدانوں اور ورکروں کی اکثریت وزیر خزانہ حسیب درابو کے کام کرنے کے طریقے سے خوش نہیں تھی اور الزام عائد کیا کہ جب وہ ان سے ملنے کیلئے جاتے تو ان کی بے عزتی کرتے تھے۔ جموںوکشمیر کی وزیر اعلیٰ کے قریبی سمجھے جانے والی 3کابینہ وزراءبھی پی ڈی پی ورکروں کومدد نہ کرنے پر درابو سے ناراض تھے جبکہ کئی پی ڈی پی ورکروں اور سیاستدانوں نے درابو کی برطرفی کا جشن منایا اور تکبر کیلئے انہیںسبق سکھانا چاہتے تھے۔ ذرائع کاکہنا ہے کہ کشمیر کو سماجی معاملہ قرار دینے کا بیان درابو کو ہٹانے کیلئے پارٹی کو موقعہ ہاتھ لگا اور وہ بنیادی ورکر نہیں تھے لیکن اس کے باوجود وہ جیسےچھت سے ٹپک کرسیاست میں آگئے۔

وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے وزارت خزانہ کا قلمدان وزیر تعلیم الطاف بخاری کو سونپ دیا جسے تعاون کرنے والا وزیر سمجھا جاتا ہے اور پارٹی کے اندر اور زمینی سطح پر ان کی شبیہ اچھی مانی جاتی ہے۔ وزیر خزانہ کی ذمہ داری سنبھالتے ہی بخاری نے ٹھیکیداروں کی ہڑتال ختم کروائی جنہوںنے تمام دفاتر اور تعمیرات عامہ کے شعبوں کو مقفل کیا تھا۔ بخاری نے پارٹی ورکروں کو اور ارکان قانون سازیہ کو یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ اپنے پیشرو کے نقش قدم پر چلیں گے۔ پی ڈی پی اور بی جے پی کے درمیان سب ٹھیک ٹھاک نہیں ہے، درابو کی برطرفی سے بے نقاب ہوا اور پی ڈی پی میں بہت لیڈروں کا خیال تھا کہ درابو کو بی جے پی نے پی ڈی پی میں ایک مہرے کے طور پر استعمال کیا ۔

ایک سینئر پی ڈی پی لیڈر نے کہاکہ ’ان کا بیان ہماری سیاست اور دلیل کا خاتمہ کرنے کیلئے کافی تھا، درابو کی کوشش تھی کہ وہ مرکزی قیادت کو خوش رکھے اور کشمیر میں لوگوں کی کوئی فکر نہیں تھی‘۔ درابو نے پہلے ہی یہ واضح کیا ہے کہ وہ پی ڈی پی میں موجود رہینگے اور اگلے 3 برسوں کو وہ ان کیلئے استعمال کرینگے جنہوں نے انہیںاسمبلی کیلئے منتخب کیا ہے۔ درابو کی برطرفی سے یہ معلوم ہوا ہے کہ انہوںنے پارٹی میں اثرورسوخ کھو دیا ہے اور اسے آنے والے مہینوںمیں بحال کرنا مشکل ہے۔ تاہم اب یہ دیکھنا ہے کہ ان کے دہلی میں دوست مستقبل میں ان کی باز آبادکاری کرینگے؟

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں