ریاستی سرکارنے پچھلے سیلاب سے سبق نہیں لیا


رضوان سلطان:
جموں وکشمیرمیں چار سال پہلے آئے گئے تباہ کن سیلاب سے ریاستی حکومت نے کو ئی سبق نہیں لیا ،یہی وجہ ہے کہ پچھلے ہفتے ہوئی تین دنوں کی بارشوں کی وجہ سے وادی میں ایک بار پھر خطرناک سیلاب جیسی صورتحال پیدا ہوگئی تھی ۔یعنی دو یا تین دنوں کی بارش کشمیر کو ڈبونے کے لئے کافی ہے ،اور حکومت کو جنوبی کشمیر میں سیلاب کاا علان اور وہیں سرینگر میں فلڈ الرٹ جاری کرنا پڑا ۔جو کہ بعد میں ٹل گیا تھا ۔
موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے یہی کہا جا سکتا ہے کہ 2014 ء میں آئے طوفانی سیلاب سے ریاستی سرکار نے کچھ نہ سیکھنے کی قسم کھا کے سیلاب سے نمٹنے کی تدابیر کرنے کے بجائے اگلے سیلاب کا انتظار کر رہی تھی،جو کہ اس وقت سو فیصدی ثابت ہوا ۔
اگرچہ مرکزی سرکار نے 2014 ء کے طوفانی سیلاب کے بعد جہلم میں پانی کی مقدار کوبڑھانے کے لئے 399کڑور روپیوں کی منظوری دی تھی ،شروع میں ریاستی سرکار نے جہلم کی صفائی اور فلڈ چینلز کی گندگی صاف کرنے میں سنجیدگی دیکھائی ،لیکن جیسے ہی طوفانی سیلاب لوگوں کے ذہنوں سے نکلتا گیا ،انتظامیہ بھی سُستی میں آگئی ۔
2015 ء میں آبپاشی اور فلڈ کنٹرول محکمے نے 46کڑوڑ کا پروجیلٹ کولکتہ کی ایک ڈریجنگ فرم کے حوالے کیا ،لیکن مایوس کن کام اور دی گئی ڈیڈلائن پر کام پورا نہ ہونے سے بہت سارے سوالات کھڑے ہوئے تھے ۔پروجیکٹ کے مطابق جہاں جہلم سے 16لاکھ کیوبک میٹر ملبہ صاف کرنا تھا لیکن صرف 1.4لاکھ کیوبک میٹر ملبہ صاف ہوپایا، وہیں حکومت نے ۳۹۹کڑور میں سے جہلم پرکچھ کڑوڑ صرف کرنے کے بعد باقی پیسے کہاں رکھے کسی کو خبر نہیں ،وہیں اپریل 2105 ء میں ہی تباہ کن سیلاب کے بعد جموں وکشمیر ہائی کورٹ نے دریائے جہلم پر غیر قانونی تعمیر کی گئی تجاوزات کا نوٹس لے کر دریا کی اصلی چوڑائی کو بحال کرنے کے ساتھ ناجائز تجاوزات کو ہٹانے کے احکامات جاری کئے تھے ،تاہم انتظامیہ کی طرف سے ناجائز تجاوزات کو ہٹایا گیا لیکن جیسے ہی یہ سلسلہ رک گیا،اس کے بعد پھر سے رشوت خور افسروں کی مدد سے پکے ااور عارضی ڈھانچے تعمیر کرنے کا سلسلہ شروع ہوا،کیونکہ یہ کام انتظامیہ کے تعاون کے بغیر نہیں کیا جا سکتا تھا ۔ غیرقانونی تعمیر کی اجازت دینے کے لئے 2015 ء میں سابق میونسپل کاپوریشن کمیشنر سرینگر پر اپنے عہدے کا ناجائز فائدہ اٹھانے کے الزام میں مقدمہ چلایا گیا تھا ،اسی طرح ایک اور میونسپل کمیشنر سید حق نواز کو ’ سارا سٹی مال‘ کی غیر قانونی اجازت دینے کے الزام میں حراست میں لیا گیا تھا ۔سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداﷲنے بھی اپنی ایک فیس بک پوسٹ میں راج باغ میں ہورہے ایک ہوٹل کی غیر قانونی تعمیر کو لے کے پی ڈی پی کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے ۔پوسٹ میں عمر عبداللہ نے کہا ہے کہ جو زمین بارش رکنے کے بعد راجباغ علاقے سے پانی نکالنے کے لئے استعمال کی جاتی تھی وہاں پر اب کیسے ہوٹل بنانے کی اجازت دی گئی ہے ؟
وہیں رپورٹس کے مطابق ولر جھیل لگ بھگ 40فیصد تباہ کیاگیا ہے ، وہیں میرگنڈ 70فیصد ختم ہوگیا ہے ۔ماہرین کا بھی ماننا ہے کہ جب تک نہ جھیل ولر اور اسکے ساتھ ساتھ ہوکرسر اور آنچار جھلیں صاف نہ کی جائیں تب تک ٖکچھ بھی نہیں بدل سکتا۔
اب ریاستی سرکار کو چاہیے کہ وہ دریائے جہلم پر کی گئی غیر قانونی تعمیرات کو ہٹا کے ان افسروں کے خلاف سخت کاروائی کرے جنہوں نے رشوت لے کے ان غیر قانونی تعمیرات کی اجازت دی ہے ،اسکے ساتھ جھیل ڈل میں پانی جمع ہونے کی وسعت کو بڑھانے کے لئے کام کرے تاکہ مستقبل میں صرف دو یا دن بارشوں سے سیلاب جیسی صورتحال پیدا نہ ہو۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں