کشمیری زبان مشکل ترین مسائل سے دوچار ہونے کے باوصف فروغ پا رہی ہے

سری نگر، دنیا کی بے شمار چھوٹی زبانوں کی طرح کشمیری زبان کو بھی ایسے جدید ترین اور مشکل ترین مسائل و تقاضوں کا سامنا ہے کہ جن کا مقابلہ کرنے کے لئے اگر موثر اقدام نہیں کئے گئے اس کو بھی منظر نامے سے معدوم ہونے کے شدید خطرات لاحق ہیں۔یہ بات روشن ہے کہ وادی کشمیر میں مادری زبان کشمیری کے فروغ اور تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے سرکاری و غیر سرکاری سطح پر کاوشیں جاری ہیں تاکہ یہ تاریخی اور پرانی زبان وقت کے تقاضوں کا بھر پور مقابلہ کرسکے تاہم اس زبان کے محبین اس سلسلے میں مزید موثر اور مربوط اقدام کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

کشمیر یونیورسٹی میں شعبہ کشمیر کی سربراہ پروفیسر محفوظ جان نے یو این آئی کے ساتھ کشمیری زبان کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا: ‘ہمارا شعبہ کشمیری زبان و ادب کے فروغ و تحفظ کے لئے نمایاں رول ادا کر رہا ہے جہاں یہ شعبہ اس زبان میں درس وتدریس کے لئے ایک موثر ماحول پیدا کر رہا ہے وہیں اس کے ادب میں تحقیق کرنے کے لئے وافر مواد فراہم کرتا ہے اور محققین کی بھر پور حوصلہ افزائی و رہنمائی کرتا ہے’۔انہوں نے کہا: ‘یونیورسٹی میں شعبہ کشمیری میں سب سے زیادہ تعداد میں طلبا داخلہ لیتے ہیں شعبے میں ہر سال 72 بچے پوسٹ گریجویشن کورس میں داخلہ لیتے ہیں’۔

موصوف سربراہ کا کہنا ہے کہ زائد از ایک سو بچوں نے نینشنل ایلی جبلٹی ٹیسٹ میں شاندار کامیابی حاصل کی۔انہوں نے کہا: ‘کشمیری زبان میں شیخ العلام (رح)، لل دید، حبہ خاتون، محمد گامی، ارنہ مال، آزاد، مہجور، رحمان راہی وغیرہ جیسے عالمی شہرت یافتہ شعرا پیدا ہوئے ہیں اور اس کے علاوہ کشمیری زبان کا اپنا ایک شاندار ادب ہے ‘۔ان کا کہنا ہے: ‘کشمیری زبان ایک قدیم اور شاندار زبان ہے جس کی اپنی ایک شاندار تاریخ اور ثقافت ہے’۔

وادی کے معروف شاعر اور نقاد ڈاکٹر واحد رضا بانڈرو کا کہنا ہے کہ کشمیری زبان کو کئی چلینجوں کا سامنا ہے اگر ان کا مقابلہ کرنے کے لئے فوری اور موثر اقدام نہیں کئے گئے تو اس زبان کو سخت خطرات لاحق ہیں۔

انہوں نے کہا: ‘اسکولوں میں کشمیری کو نصاب میں شامل کیا گیا ہے لیکن اساتذہ کا خاطر خواہ انتطام نہیں ہے مضمون کے ماہرین جنہوں نے اس زبان میں ڈگریاں حاصل کی ہیں وہ اس کو نہیں پڑھا رہے ہیں بلکہ دوسرے مضمون کا ماہر کشمیری پڑھا رہا ہے علاوہ ازیں اسکولوں میں نصابی کتب نایاب ہیں ‘۔ان کا کہنا ہے: ‘پرائیویٹ اسکولوں میں کشمیری زبان کی انتہائی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے جو اس زبان کو بہت بڑا چلینج ہے’۔

موصوف نے کہا کہ کشمیری زبان و ادب میں پوسٹ گریجویشن کرنے والے بچوں کی بڑی تعداد ہے جن کی خدمات حاصل کی جا سکتی ہیں۔انہوں نے کہا کہ حد یہ ہے کہ کشمیری زبان کے تحفظ کے لئے معرض وجود میں آنے والی تنظیموں کے بعض سربراہوں اور اراکین کے بچے بھی گھروں میں اردو یا انگریزی زبان میں ہی بات کرتے ہیں۔ان کا کہنا تھا: ‘گھروں میں کشمیری زبان میں بات کرنا اور اسکولوں میں اسی زبان کو درس و تدریس کے لئے استعمال کرنا اس کے تحفظ میں کلیدی رول ادا کر سکتا ہے’۔

وادی کے معروف اور جوان سال شاعر ساگر نظیر پُر امید ہیں کہ جب تک کشمیری لوگ ہیں تب تک کشمیری زبان زندہ ہے۔انہوں نے کہا: ‘جب تک کشمیری لوگ ہیں تب تک کشمیری زبان زندہ ہے دنیا کتنی بھی بدل جائے ہمارے یہاں شادی بیاہ کے موقعوں پر کشمیری زبان میں ہی خواتین روایتی روف کا مظاہرہ کریں گی اور کھیت کھلیانوں میں کسان کام کے دوران کسان کشمیری زبان میں ہی گیت گائیں گے’۔

ان کا کہنا ہے: ‘پہلے ایسا لگتا تھا کہ کشمیری زبان بہت جلد ختم ہوگی لیکن نئی نسل میں اپنی زبان کے تئیں بڑھتی ہوئی دلچسپی ایک حوصلہ افزا بات ہے’۔

موصوف شاعر نے کہا کہ ہماری نئی نسل میں انگریزی اور اردو کے ساتھ ساتھ بڑی تعداد میں کشمیری زبان کے شاعر بھی سامنے آ رہے ہیں۔انہوں نے کہا:گرچہ پرائیویٹ اسکولوں میں اس زبان کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے بلکہ بعض پرائیویٹ اسکولوں میں کشمیری زبان میں بات کرنے پر بچوں پر جرمانہ عائد کیا جاتا ہے لیکن اس کے اثرات کم ہوں گے بشرطیکہ گھر میں بچے کشمیری زبان میں ہی بات کریں گے’۔ان کا کہنا ہے کہ والدین اور اساتذہ کو کشمیری زبان کا تحفظ یقینی بنانے کے لئے بہت بڑا روال ہے۔

انہوں نے کہا کہ وادی میں سرکاری و غیر سرکاری سطح پر کشمیری زبان و ادب کے فروغ کے لئے کوششیں جاری ہیں لیکن اس سلسلے میں مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔

وسطی کشمیر کے جلع بڈگام سے تعلق رکھنے والےنوجوان شاعر آصف سافل کا ماننا ہے کہ کشمیری زبان کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے سرکاری سطح پر سر پرستی انتہائی ضروری ہے۔

انہوں نے کہا: ریڈیو اور ٹی وی پر ماضی میں جس طرح کے پروگرام نشر کئے جاتے تھے وہ کشمیری زبان کے فروغ کے لئے انتہائی ممد و مدد گار ثابت ہو رہے تھے اسی طرح کے پروگرام دوبارہ چلانے کی ضرورت ہے جن سے عام لوگ جڑ سکیں گے اسکولوں میں رائج کرنے سے اس زبان کے ساتھ صرف ایک مخصوص طقبہ جڑ سکتا ہے’۔

ان کا کہنا ہے: ‘نئی نسل کو زبان کے ساتھ جوڑنے کے لئے گھروں اور اسکولوں میں اس زبان بات کرنا ضروری ہے بلکہ درسگاہوں میں بھی عربی، فارسی کے ساتھ ساتھ کشمیری زبان کو بھی سکھایا جانا چاہئے’۔

نوجوان شاعر نے کہا کہ خوش آئند بات یہ ہے کہ بالی ووڈ کی فلموں میں اب کشمیری زبان کے گیت گائے جاتے ہیں نیز اب مائکرو سافٹ میں اس کا ترجمہ بھی ہوتا ہے۔انہوں نے کہا: ‘اس نوعیت کے وقت کے تقاضوں کے عین مطابق کئے جانے والے اقدام زبان کی زندگی کی نوید ہیں’۔ان کا دعویٰ ہے کہ کشمیری زبان کے تحفظ کے لئے سرکار ہی نہیں بلکہ عام لوگ بھی برابر ذمہ دار ہیں۔

آصف سافل نے کہا: ‘اس زبان میں زیادہ سے زیادہ لٹریچر پڑھنے کی ضرورت ہے اس سے وابستہ ادیبوں، شاعروں کی سب سے زیادہ حوصلہ افزائی کرنے کی ضرورت ہے ایسا کرنے سے ہماری ادبی تنظمیں اپنی ذمہ داریوں سے عہد بر آ ہوسلتی ہیں’۔انہوں نے کہا کہ کشمیری زبان میں زیادہ سے زیادہ جرائد اور اخبار شائع ہونے چاہئے۔

یو این آئی ایم افضل

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں