کشمیری روایتی کانی شال کی صنعت زوال پذیر کیوں

سری نگر،(یو این آئی): وادی کشمیر کی جو روایتی دستکاری کی چیزیں دنیا کے گوشہ وکنار میں اپنی ایک منفرد شناخت و مقام رکھتی ہیں ان میں کانی شال سر فہرست ہے لیکن اس اہم اور تاریخی دستکاری کی صنعت گذشتہ کئی برسوں سے روبہ انحطاط ہے۔

اس صنعت سے جڑے دستکاروں کا کہنا ہے کہ بیوپاریوں کی طرف سے انتہائی کم مزدوری ملنے کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ اس صنعت سے وابستہ دستکار کنارہ کشی کرکے روزی روٹی کے لئے دوسرے پیشے اختیار کر رہے ہیں بلکہ کوئی بھی نیا شخص اس پیشے کو اپنے روزگار کا ذریعہ نہیں بنا رہا ہے۔

انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ مستقبل میں دستکاری کی یہ صنعت ختم ہی ہوسکتی ہے جس سے ہماری شاندار ثقافت کی عمارت کا ستون زمین بوس ہوسکتا ہے۔کانی شال کی صنعت سے گذشتہ 18 برسوں سے وابستہ دستکار فیصل احمد لون نے یو این آئی کے ساتھ گفتگو میں کہا کہ مہنگائی کے اس دور میں اس پیشے سے جڑے رہنے سے گھر کا گذارہ بڑی مشکل سے ہوجاتا ہے۔

تصویریو این آئی

انہوں نے کہا کہ ہم اپنے عیال کی وقت کے تقاضوں کے مطابق پرورش نہیں کر پا رہے ہیں لیکن اس روایتی صنعت کے ساتھ لگاؤ اور محبت نے ہمیں باندھ رکھا ہے۔ان کا کہنا تھا:‘کوئی بھی دستکاری ہمارے لئے روز گار کا ہی ذریعہ نہیں ہے بلکہ ان کے ساتھ ہماری شاندار ثقافت جڑی ہوئی ہے، یہ ہماری پہچان ہے اور ہمارا میراث بھی’۔سری نگر کے نور پورہ صفا کدل علاقے سے تعلق رکھنے والے موصوف دستکار نے کہا کہ کانی شال کی صنعت زوال پذیر ہے۔

انہوں نے کہا:‘بہت کم لوگ کانی شال کی صنعت سے اب وابستہ ہیں کئی دستکاروں نے اس سے کنارہ کشی کرکے روز روٹی کے لئے دوسرے پیشے اختیار کئے کیونکہ اس کے ساتھ رہ کر گھر میں چولھے جلانا مشکل بن گیا ہے ’۔ان کا کہنا تھا:‘اب مسئلہ یہ ہے کہ نئے لوگ بھی اس پیشے کو اختیار نہیں کر رہے ہیں کیونکہ یہاں مزدوری بہت کم ہے جس سے آج کے مہنگائی کے دور میں گھر چلانا ممکن نہیں ہے ’۔

فیصل احمد نے کہا کہ اس صنعت کے بیوپاری اچھی کمائی کر رہے ہیں لیکن دستکار جن کی محنت سے یہ چیزیں تیا رہوکر دنیا بھر میں پہنچ جاتی ہیں غریب سے غریب تر ہو رہے ہیں۔انہوں نے کہاَ:‘ہم جب صبح کے آٹھ بجے شال پر بیٹھ کر شام کے سات بجے اٹھتے ہیں تب زیادہ سے زیادہ تین سو روپیہ کما پاتے ہیں جبکہ ایک عام مزدور صبح کے نو بجے سے شام کے پانچ بجے تک ہی کا کرکے پانچ چھ سو روپیے کماتا ہے ایسے حالات میں کون اس پیشے کو اختیار کرے گا’۔

ان کا کہنا تھا کہ پہلے پہل کانی شال سے وابستہ دستکاروں کو اچھی مزدوری دی جاتی تھی لیکن کچھ برسوں سے انہیں انتہائی کم معاوضہ دیا جا رہا ہے۔موصوف کانی شال دستکار نے کہا کہ باہر کے بازاروں میں لاکھوں روپیوں میں بھی کانی شال بیچا جا رہا ہے لیکن یہاں ایک دستکار کو سال بھر اپنے تمام تر فنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے بعد چالیس سے پچاس ہزار روپیے دئے جاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ حکومت بھی اس صنعت کی طرف کم ہی توجہ دے رہی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اٹھارہ برسوں میں پہلی بار ہماری دس دستکاروں پر مشتمل فرم کو حکومت نے مالی مدد کی ہے۔فیصل احمد نے حکومت سے درخواست کی کہ وہ اس صنعت کو ختم ہونے سے بچانے کے لئے موثر اقدام کرے۔انہوں نے اہلیان کشمیر سے بھی اپیل کی کہ وہ اس صنعت کے فروغ اور بقا کے لئے اپنا اپنا رول ادا کریں کیونکہ اس کا زوال ایک پیشے کا نہیں بلکہ ثقافت کے ایک اہم پہلو کا زوال ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں