سپر سیشلٹی ہسپتال شیرین باغ نام بڑے درشن چھوٹے

2برسوں سے لفٹ بے کار، مریض اور تیماردار پہاڑ چڑھنے کیلئے مجبور

سرینگر//سپر سپشلسٹی ہسپال میں لاکھوں روپے مالیت کے نصب کئے گئے5 لفٹ 2برسوں سے بے کار پڑے رہنے سے مریضوں اور تیمارداروں کو اوپری منزلوں تک پہنچنے کے لئے آئے روز سینکڑوں سیڑھیاں چڑھنا پڑتی ہیں جبکہ علیل مریضوں کو ویل چیروں اور سٹریچروں پر لاد کر ریمپ (ڈھلان ) کے راستے منزلوں تک پہنچناناکوں چنے چبانے کے مترادف ہے۔

ذرائع کاکہنا ہے کہ لفٹ نصب کرنے والی کمپنی نے قریب 60لاکھ روپے کی عدم ادائیگی کے سبب تکنیکی خرابی رکھی ہے جس کا خمیازہ یہاں آنے والے بیماروں اور تیمارداروں کو بھگتنا پڑرہا ہے۔

حیات پورہ چاڈورہ کے تیماردار محمد ایوب ریمپ کے راستہ سے پروسٹیٹ کے مریض 75سالہ غلام رسول شیخ کوویل چیئر پر علاج و معالجہ کرانے کیلئے لے جاتے ہوئے سانس پھول رہی تھی۔ محمد ایوب کاکہناہے کہ ہسپتال میں لفٹ ہونے کے باوجود بھی ان کا استعمال نہیں ہورہا ہے جس کے باعث نہ صرف تیمارداروں بلکہ مریضوں کو بھی شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔
مذکورہ تیماردار نے کہاکہ اوپری منزلوں تک مریض کو پہنچانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ برزلہ سرینگر سے آئے تیماردار نواز یوسف شاہ کاکہنا ہے کہ وہ پچھلے 5دنوں سے مریض کو سٹریچر پر ریمپ کے راستہ علاج کرانے کیلئے آرہا ہے۔
سٹریچر پر لیٹے محمد شفیع کے دونوں گردوں میں تکلیف ہے اور اسے نازک حالت میںریمپ کے راستہ 2تیماردار لے جارہے تھے۔ نواز یوسف شاہ کاکہنا ہے کہ مریض کو مقررہ جگہ پر پہنچانے کیلئے اس کی سانس پھول جاتی ہے ۔

انہوںنے کہاکہ ایک تیماردار آگے اوردوسرا پیچھے سے پھونک پھونک پر قدم رکھتے ہوئے سٹریکچرپر لیٹے مریض کوسنبھالے ہوئے آگے لے جاتا ہے جبکہ دائیں اوربائیں رہنے والے افراد کو اس بات کی فکرلاحق رہتی ہے کہ مریض نیچے نہ گرجائے۔ مذکورہ تیماردار نے کہاکہ ہسپتال کی تعمیر کیلئے بھاری رقوم خرچ کی گئی ہے لیکن لفٹ کارآمد نہ ہونے کے سبب جدید مشینری سے لیس ہسپتال کے قیام کا مقصد فوت ہوجاتاہے۔

ہسپتال میں علاج کرانے آئے بشیر احمد کاکہنا ہے کہ اوپری منزلوں تک پہنچنے کیلئے 60سے 70سیڑھیاں چڑھنا پڑتا ہے اور کبھی کبھار ٹیسٹ کیلئے فیس جمع کرانے کیلئے نچلی منزل میں جانا پڑتا ہے اور اوپر نیچے آنے جانے کے دوران ٹانگیں جواب دیتی ہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ ہسپتال میں 5لفٹ نصب کرنے والی ایک کمپنی کا حکومت کے پاس 60لاکھ روپے بقایا ہے اور تکنیکی خرابی رکھ کر لفٹ کو بے کار بنایا گیا ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ دسمبر 2016کے بعد تمام لفٹ بند پڑے ہیں جس کے باعث نازک مریضوں کو سٹریکچروں اور ویل چیئروں پر جیسے تیسے گھسیٹ کر اوپری منزل تک پہنچانا پڑتا ہے۔ ہسپتال میں5 لفٹ ہونے کے باوجود انہیں چالو نہ کرنے سے نہ صرف بیماروں اور تیمارداروںبلکہ ملازمین کو بھی سخت ترین دشواریوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔

مرکزی اورریاستی حکومتوں نے مریضوں کو جدید تقاضوں کے تحت طبی سہولیات کی فراہمی کیلئے سُپر سپشلسٹی ہاسپٹل کاقیام میںعمل میں لایا اورعوام میں اس بات کولیکر زبردست خوشی ہوئی کہ بیماروں کی مشکلات کا ازالہ ہوجائیگا۔ اگرچہ ہسپتال میںمریضوں کا جدید تقاضوں کے مطابق علاج و معالجہ کیا جارہا ہے تاہم انہیں اس کیلئے ناکوں چنے چبانے پڑتے ہیں۔ اس حوالے سے سپر سیپشلٹی ہسپتال کے میڈیکل سپرانٹنڈنٹ ڈاکٹر نذیر چودھری نے کہاکہ اس معاملہ کو متعلقہ کمپنی سے اٹھایا گیا ہے اور امید ہے کہ حل نکل آئیگا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں