حیدرپورہ انکاونٹر: منوج سنہا انتظامیہ کو سیاسی جماعتیں گھیرنے کی کوشش میں

جہاں منوج سنہا انتظامیہ نے جوڈیشل انکوائری کے احکامات جاری کے وہی دوسری جانب مقامی سیاسی جماعتوں نے پوری طرح سے سنہا ایڈمنسٹریشن کو گھیرا
آداب میں ہو عاصم محالدین اور آپ دھیک رہے ے میرے ساتھ خبر اردو پر کور اسٹوری

جموں کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نے آج حیدرپورہ تصادم کو لے کر جوڈیشل انکوائری کے احکامات جاری کے۔ سنہا نے اپنے ایک ٹویٹ میں لکھا کہ اس تصادم کو لے کر ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی سربراہی میں پوری تحقیقات کرائی جاے گئی۔ اور ایک مخصوص وقت کے اندر رپورٹ جمع کرنے کے بعد گورنمنٹ مناسب کاروائی کرے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ سرکار وعدہ بند ے کہ کسی عام شہری کے ساتھ ناانصافی نہ ہوں اور عام شہریوں کے جان و مال کا تحفظ کیا جاے۔

وہی دوسری جانب مرحوم الطاف احمد اور ڈاکٹر مدثر کے لواحقین کو پریس کالونی سے پولیس کے زبردستی نکالنے پر مقامی سیاسی جماعتوں نے سنہا کی انتظامیہ کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔
ڈاکٹر مدثر اور الطاف احمد کے لواحقین کل رات دیر گئے تک پریس کالونی میں احتجاج کررہے تھے اور انتظامیہ سے مانگ کررہے تھے کہ آخری رسومات کے لے لواحقین کے حوالے لاشیں کی جاے۔تاہم پولیس نے احتجاجی لواحقین کو جگہ کھالی کرنے کے لے مجبور کیا۔

سابق وزیر اعلی عمر عبداللہ آج دوپہر کو گپکار چوک میں دھرنے پر بھیٹے اور کہا کہ اب ان سے زیادہ برداشت نہیں ہورہا ے۔ انہوں نے کہا کہ اب جب پولیس بھی یہی کہتی ے کہ ڈاکٹر مدثر اور الطاف احمد بے گناہ تھے اور وہ پولیس کی مدد کررہے تھے کمپلیکس کے اندر جانے میں تو سرکار ان کی لاشیں واپس کیوں نہیں کررہی ے۔ انہوں نے کہا کہ متاثرین لواحقین کے ساتھ کل رات کا برتاؤ وحشیانہ تھا جس کی وہ مذمت کرتے ے۔

وہی دوسری جانب سابقہ وزیر اعلی محبوبہ مفتی نے کہا بجائے اسکے کہ لواحقین کے حوالے آخری رسومات کے لے لاشیں سپرد کی جاتی بدقسمتی سے متاثرہ لواحقین کو پولیس نے ہراست میں لیا جو انتظامیہ کی طرف غیر سنجیدگی اور غیر اخلاقی ہونے کا اشارہ کرتا ے۔ انہوں نے انتظامیہ سے کہا کہ کمسکم لواحقین کے حوالے لاشیں تو کی جاے۔

پیپلز کانفرنس کے کارکنوں نے آج صبح سرینگر میں احتجاجی ریلی نکالی اور مانگ کی کہ مارے گے افراد کی لاشیں لواحقین کے حوالے کرے۔ پارٹی کے چیئرمین سجاد گنی لوں نے اپنے ایک سوشل میڈیا پوسٹ بھی ڈالا جس میں انہوں نے لکھا کہ کشمیری لایوز میٹر۔

تاہم پیپلز الائنس فار گپکار ڈیکلریشن نے آج ایک پریس کانفرنس کے دوران مقامی انتظامیہ اور نی دلی کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ پی اے جی ڈی کے ترجمان محمد یوسف تاریگامی نے کہا کہ کویڈ یا پھر کسی اور آرڈ میں اب سرکار متاثرہ افراد کے احباب و اقارب کو تدفین کی اجازت بھی نہیں دیتی ے۔ انہوں نے کہا کہ حیدرپورہ انکاونٹر کی آزادانہ تحقیقات کی جاے اور قصور وار لوگوں کو سخت سزا دی جائے ۔ پی اے جی ڈی نے یہ بھی کہا کہ کشمیر سے پارلیمنٹ ممبران دلی میں اپوزیشن جماعتوں سے مل کر صدر ہند تک یہ مسلہ پہنچاہنگے۔

واضح رہے سوموار کی شام کو پولیس نے دعوٰی کیا تھا کہ حیدرپورہ کے علاقے میں انہوں نے ایک پاکستانی جنگجوؤں اور ان کے ایک مقامی ساتھی کو تصادم میں مارا۔ معاملہ تب بھگڑ گیا جب پولیس نے دو اور لاشیں وہاں سے نکالی اور انہیں ogw کہا اور لواحقین کے حوالے لاشیں سپرد کرنے سے انکار کیا۔

تیسرا مارا گیا نوجوان محمد عامر جو گول رامبن کا رہنے والا تھا اور انکے اہلخانہ بھی احتجاج پر ے۔ ان کا دعوٰی ے کہ عامر ڈاکٹر مدثر کے پاس ملازم تھے اور ملیٹنٹوں سے ان کا کوئی تعلق نہیں تھا۔
گول کے کھچ علاقوں میں ضلع انتظامیہ نے پھچلے دو دن سے سیکشن ۱۴۴ نافذ کیا ے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں