66 ملین سال پرانی عجیب و غریب ’چیز‘ کا راز معلوم کر لیا گیا.

ٹیکساس یونیورسٹی کے سائسندانوں نے 66 ملین سال پرانے فوصل کا راز بالآخر معلوم کر لیا ہے۔ یہ فوصل 2011ء میں دریافت ہوا تھا اور تب سے سائنسدان اس کی حقیقت جاننے کی کوششوں میں لگے تھے۔اس ‘چیز‘ کی حقیقت ہے کیا؟

چِلی کے ماہرین نے یہ فوصل یا پتھر نما چیز کو 2011ء میں دریافت کیا تھا تاہم اس کی شناخت میں ناکامی کے بعد انہوں نے اسے ملکی عجائب گھر میں رکھ دیا تھا۔ جرمن میگزین ‘فوکس‘ کے مطابق شناخت میں ناکامی کے سبب اسے محض ایک چیز یا ‘دی تھنگ‘ کا نام دیا گیا۔ اس کا حجم ایک فٹبال کے برابر ہے۔

تاہم 2018ء میں ماہر رکازیات یا پلینٹالوجسٹ جولیا کلارک نے خیال ظاہر کیا تھا کہ یہ چیز دراصل ایک بہت بڑے رینگنے والے جانور کا انڈا ہے۔ یہ مفروضہ اس وقت اس چیز کے حجم اور اس میں ڈھانچے کی غیر موجودگی کی وجہ سے مسترد کر دیا گیا تھا۔تاہم سائنسدانوں کی طرف سے رواں برس اس چیز کے کیمیائی تجزیوں نے جولیا کلارک کے اُس مفروضے کی تصدیق کر دی جس میں انہوں نے اسے ایک انڈا قرار دیا تھا۔ کلارک نے مفروضہ اپنے ریسرچ پیپر میں پیش کیا تھا جس کی وہ شریک مصنف تھیں اور یہ معروف سائنسی تحقیقی جریدے ‘نیچر‘ میں شائع ہوا تھا۔

یہ انڈا ہے کس جاندار کا؟

جرمن اخبار ‘ڈوئچے سائٹنگ‘ کے مطابق یہ فوصل 28 سینٹی میٹر لمبا اور 18 سینٹی میٹر چوڑا ہے۔ یہ سب سے بڑا سافٹ شیل انڈا ہے، اور اب تک دریافت ہونے والا دوسرا سب سے بڑا انڈا ہے۔ یہ سانپ کے انڈے کی شکل کا ہے اور سائنسدانوں کا خیال ہے کہ یہ جس جاندار کا انڈا ہوسکتا ہے اس کی کم سے کم لمبائی بھی سات میٹر رہی ہو گی۔سائسندان ابھی تک اس جاندار کی شناخت کی کوشش میں ہیں۔ تاہم ان کا اندازہ ہے کہ یہ ‘موزاسوریت‘ خاندان کے رینگنے والے سمندری جانوروں کے خاندان سے ہو سکتا ہے، جو کئی ملین سال قبل زمین پر وجود رکھتے تھے۔

سائسندانوں کو اسی مقام سے اس جاندار کے ڈھانچے بھی مل چکے ہیں جہاں سے انہیں یہ انڈا ملا تھا۔ تاہم اب تک کی معلومات کے مطابق یہ قسم انڈوں کی بجائے بچے دیا کرتی تھی۔ بعض سائسندانوں کا خیال ہے کہ یہ کسی ایسے جل تھلی یا ایمفیبیئن جاندار کا بھی ہو سکتا ہے جو بہت پہلے ناپید ہو گئے ہوں۔ ایمفیبیئن جاندار پانی اور خشکی دونوں میں رہ سکتے ہیں۔تازہ تحقیق کے مصنف لوکس لیجنڈرے کے بقول، ”نرم شیل کے حامل کسی انڈے کا اس حد تک محفوظ شکل میں ملنا انتہائی نادر واقعہ ہے۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ اس دریافت سے زندگی اور قدیم دور میں مختلف جانداروں کے بارے میں تحقیق کو ایک نئی سمت ملے گی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں