کشمیریوں کو داعش کے ساتھ نہ جوڑا جائے

سید قرار ہاشمی

داعش۔۔ISISکا مطلب اسلامک سٹیٹ فار عراق اینڈ سیریا ہے اور پورے عالم میں یہ موضوعِ بحث ہے۔ اب یہ گروپ ’خلافت‘ یا اسلامک سٹیٹ کہلانے کو ترجیح دیتا ہے اور یہ چاہتا ہے کہ اسے خطہ اور اس کے باہر ایک آزاد تنظیم تسلیم کرکے اس کا احترام کیا جائے۔ یہ گروپ خودساختہ خلیفہ ابو بکر البغدادی کی قیادت میں تشکیل میں آیااور جس کا مقصد تھاکہ اسے نہ صرف مشرق وسطی بلکہ تمام مسلم دنیا میں فروغ دیاجائے۔ اسلام کے نام کا استعمال کرکے پورے مشرق وسطی میں پھیلنا کوئی معمولی بات نہیں ہے بجائے اس کے کہ اسے دیگر عناصر نے تخلیق اور حمایت کی جوتوجہ کے قابل ہے

امت اسلامیہ کے درمیان نااتفاقی اور حقیقی اسلام کی شبیہ کو تاراج کرنے کیلئے ایسے دہشت گرد گروپوں کو صیہونی حمایت اور مالی امداد حاصل ہے تاکہ اس طرح کی کارروائی کی جاسکے۔ ISIS اور دیگر دہشت گرد گروپوں کی امریکی امداد کی دستاویزی اورصحیح اطلاعات موجود ہیں۔ انہوںنے کوئی بھی ایسے حربے استعمال کرنے نہیں چھوڑے جس سے عراق اور شام کی موجودہ حکومتوں کوگرایا جاسکے لیکن وہ عوامی حمایت کی عدم فراہمی کے سبب ناکام ہوگئے۔

انہوںنے مشرق وسطی میں ثقافتی میراث ، مختلف عقائد کے مذہبی مقامات تباہ کئے،ہزاروں خواتین کی نام نہاد ’جنسی جہاد‘ کے نام پر آبروریزی کی، شیعہ اور سنی کے درمیان کوئی تفریق نہیں کی اور ان کا مقصد خطہ میں تشدد کے گراف کو بلندیوں تک لے جانا تھا۔

انہوںنے سنی فرقہ کے اعلیٰ مذہبی سکالروں جیسے سنان دج میں شیخ الاسلام ، بلوچستان میں حسین بور (مرحوم) اور دیگر شیعہ دینی رہنماﺅں کو مار ڈالا۔ مشرق وسطی میں امریکی اور صیہونی سازشوں کوخدا تعالی نے نیست و نابود کیا۔ جس طرح انگریزوں نے برصغیر ہند میں مسئلہ کشمیر کا رستا ہوا زخم کھلا رکھ کر ہندو پاک ہمسایہ ممالک کے درمیان اختلاف کا بیج ڈالا ، اسی طرح امریکہ ایسے ہی اختلاف برقرار رکھنا چاہتا ہے جو کبھی حل نہ ہوپائیں۔

وادی کشمیر میں کہیں بھیISISاور طالبان کی موجودگی ثابت نہیں ہوئی ہے، مشترکہ مزاحمتی قیادت (Joint Resistance Leadership (JRL) نے ہمیشہ ISIS، القاعدہ سے اپنے آپ کو دور رکھا ہے اور کہا ہے کہ ہماری مزاحمتی تحریک کے ساتھ ان بین الاقوامی گروپوں کاکوئی تعلق نہیں ہے۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ داعش کو اسرائیلی اور امریکی مفادات پورا کرنے کیلئے تخلیق کی گئی تاکہ بین الاقوامی سطح پر اسلام کوبربریت والے مذہب کے طور پر پیش کیاجائے۔ داعش کے جھنڈے لہرانے سے کشمیر میں اس دہشت گرد تنظیم کیلئے کوئی جگہ نہیں بنتی ہے۔ مصنفین، دانشوروں، سکالروں اور خاص طور پر مذہبی رہنماﺅں کایہ اہم رول بنتا ہے کہ ریاست میں اس گروپ کے جھنڈے لہرانے اور ان کے دیگرمواد سے بچانے کیلئے عوام میں بیداری لائی جائے اور ان کی حوصلہ افزائی نہ کی جائے۔

ہمیں ان دشمنوں کے حربوں اور زہریلے منصوبوں سے سخت ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے جوفرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم کرکے اپنے مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ہر ایک شہری کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ حالات کا بغور جائزہ لیں اور ریاست میں قیام امن کیلئے اپنا کردار ادا کریں۔ واد ی میںعوام کی مشکلات اور نامساعد حالات کو دیکھتے ہوئے تمام فریقوں کے درمیان امن عمل کی شروعات کی جائے۔

وادی میں دیرپا قیام امن اور عوام کے دل و ذہن کو جیتنے کیلئے ہندو پاک کے درمیان جامع مذاکراتی عمل، اعتماد سازی کے اقدامات شروع کئے جائیں تاکہ اموات کا یہ سلسلہ ہمیشہ کیلئے بند ہوسکے۔ کشمیر کی صورتحال کا شام یا داعش کے ساتھ موازنہ نہیں کیاجائے، کسی شہری کو مارنا حل نہیں ہے لیکن انسانیت کی بہتری کیلئے نئی دہلی اور اسلام آباد کے درمیان پُرامید راستے اختیار کرنے چاہئے۔

مصنف سماجی کارکن اور پولٹیکل کمنٹریٹر ہے اور وسطی کشمیر گاندربل کے ہیں
ان سے kararhashmi5@gmail.com پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں