تحریر: جاوید اختر بھارتی
اکثر و بیشتر لوگ کہتے ہیں کہ قلم کا تعلق تعلیم سے ہے کیونکہ تعلیم سے محروم انسان لکھ نہیں سکتا ،، اس سے انکار نہیں ہے مگر یہ یاد رکھنا چاہئے کہ قلم کا تعلق صرف تعلیم سے ہوتا تو وہی بات لکھی جاتی جس بات کی اسے تعلیم دی گئی ہے جہاں تک تعلیم کی بات ہے تو دو طرح کی تعلیم ہوتی ہے ایک کتابی شکل میں اور دوسری زبانی شکل میں کتابی شکل میں تعلیم حاصل کرنے والا تعلیم یافتہ بھی ہوتا ہے اور سند یافتہ بھی ہوتا ہے اور زبانی شکل میں تعلیم حاصل کرنے والا تعلیم یافتہ تو ہوتاہے مگر سند یافتہ نہیں ہوتا مگر تربیت یافتہ ہوسکتا ہے معلوم یہ ہوا کہ تعلیم یافتہ ، سند یافتہ اور تربیت یافتہ ان تینوں زمروں کا آپس میں بڑا گہرا تعلق ہے اور دونوں طرح کی تعلیم پر جب گہرائی سے غور کیا جائے گا تو یہ واضح ہوجائے گا کہ قلم کا تعلق تعلیم کے ساتھ ضمیر سے بھی ہے یہ ضمیر ہی تو تھا کہ مولانا ابوالکلام آزاد کی خدمت میں ایک رقعہ بھیجا گیا تھا کہ آپ قلم کا استعمال کریں اور اپنے آپ کو تحریک آزادی سے الگ ہونے کی بات لکھیں آپ کی رہائی ہوجائے گی اور آپ اپنی بیوی کا علاج کرالیں گے تو مولانا آزاد نے قلم کا استعمال تو کیا لیکن ہوا کے رخ پر نہیں ، دہشت اور خوف میں مبتلا ہو کر نہیں ، انگریزوں کے بنے ہوئے جالوں میں پھنس کر نہیں اور کسی لالچ میں آکر نہیں بلکہ ذاتی اغراض ومقاصد کو ٹھوکر مارکر لکھا کہ بھارت میری ماں ہے اور یہ زنجیروں میں قید ہے اور میرا ملک غلامی کی زنجیروں میں قید رہے اور میں اپنی بیوی کے علاج کے لئے اپنے آپ کو تحریک آزادی سے الگ کرلوں یہ ناممکن ہے میری بیوی کی بیماری مجھے منظور ہے ، جیل کی سلاخوں میں رہنا مجھے منظور ہے لیکن میرا وطن غلامی کی زنجیروں میں جکڑا رہے یہ مجھے ہرگز منظور نہیں اسے کہتے ہیں وطن سے محبت اور ضمیر کی آواز ،، اور آج بھی لکھنے والے ایسے افراد ہیں جن کا قلم بیباک ہے انہیں ڈرایا بھی جاتا ہے اور دھمکایا بھی جاتاہے لیکن پھر بھی وہ قلم چلاتے ہیں تو کنکر کو کنکر اور پتھر کو پتھر لکھتے ہیں حق و صداقت کی آواز بلند کرتے ہیں اور ایک صحافی کی ذمہ داری ہے کہ وہ آئینہ دیکھائے ،، آج دونوں کے ہاتھوں میں قلم ہے جو صرف حکومت کو خوش کرنے میں لگا ہے اور جو عوام کے مسائل اٹھاتا ہے اور عوامی جذبات کی ترجمانی کرتا ہے اور دونوں کے پاس تعلیم بھی ہے لیکن ضمیر اور بے ضمیر کا فرق یہ ہے کہ ایک کو صرف میڈیا کہاجاتاہے اور ایک کو آج گودی میڈیا کا نام دیاجاتاہے کیونکہ ایک نے صحافت کو پیسہ کمانے کا ذریعہ اور پیشہ سمجھ لیا اور ایک نے صحافت کو سچائی کا آئینہ دیکھانے کا فریضہ سمجھا اور صحافت کا مطلب ہی یہی ہے کہ عوام کے مسائل اور ان کی ضروریات و سہولیات سے متعلق حکومت کو روشناس کرایا جائے ،، ضمیر کا زندہ ہونا ضروری ہے کیونکہ جس کا ضمیر زندہ رہے گا وہ اپنی زبان سے مکر نہیں سکتا اور اپنا قلم گروی نہیں رکھ سکتا یقیناً تعلیم انسان کا بیش قیمتی زیور ہے اور جس انسان کے پاس تعلیم ہو اور ضمیر زندہ ہو تو اس کے سینے میں انسانیت کا درد بھی ہوگا ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک ہونے کا جذبہ بھی ہوگا –
آج چاہے کوئی بھی شعبہ ہو مفکر، مقرر، محدث، مناظر، سائنسداں، انجینیر، ڈاکٹر، پروفیسر، منسٹر، آفیسر وغیرہ وغیرہ سب کا تعلق تعلیم سے ہے اب اس کے بعد جس کا ضمیر زندہ ہے اس کی خدمات کا طریقہ الگ ہوتاہے اور جس کا ضمیر زندہ نہیں ہوتاہے اس کی خدمات کا طریقہ الگ ہوتاہے اور دونوں میں کافی فرق ہوتاہے آج اسپتال کمائی کے لئے بھی بنتا ہے اور خدمت خلق کے جذبے کے تحت بھی بنتا ہے دونوں ہی میں ڈاکٹر ہوتے ہیں اور دونوں ہی نبض ٹٹول تے ہیں مگر ایک مرض پکڑنے کے لئے اور دوسرا دولت کھینچنے کے لئے اور دونوں کا تعلق تعلیم سے ہی ہے مگر درمیان میں ضمیر کا بہت بڑا دخل ہے،، اسی طرح سیاست و ملازمت کا معاملہ بھی ہے جس کا ضمیر زندہ ہوتا ہے وہ سیاست اور ملازمت بھی خدمت خلق کے جذبے کے ساتھ کرتا ہے اور جس کا ضمیر مردہ ہوجاتا ہے وہ اپنی جیب بھرنے اور ذاتی اغراض ومقاصد کے حصول کے لئے کرتا ہے وہ دولت اور حرص و ہوس کی لالچ میں اس حد تک گرجاتا ہے کہ وہ اپنے عہدے و منصب کا ناجائز استعمال کرتا ہے ضمیر مرجانے صورت میں بدن پر جبہ ، سر پر رومال اور رنگ ڈال کر شیخ بھی بت خانے کی طرف قدم بڑھاتا ہے پڑوس میں ہی بستی کی بستی اجڑ جائے ، معصوم بچوں تک کا قتل عام ہو جائے باقی لوگ بھوک و پیاس سے مرنے لگیں مگر کچھ بھی احساس نہیں ہوتا کسی کی چیخ و پکار سنائی نہیں دیتی کیوں: اس لئے کہ ضمیر مرگیا
اس کے اندر انسانیت نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی وہ یہ بھی بھول جاتا ہے کہ ہم جس کی ملکیت ہیں ایک دن اسی کی طرف جانا ہے اور ہم مٹی سے بنے ہیں اور ایک دن مٹی میں ہی مل جانا ہے –
[email protected]
+++++++++++++++++++++++++++++++++
جاوید اختر بھارتی (سابق سکریٹری یو پی بنکر یونین) محمدآباد گوہنہ ضلع مئو یو پی