خلق کثیر کو فیضیاب کرنے والی شخصیت مولانا محمد سلیمان شمسی رحمۃ اللہ علیہ !

مفتی محمد اسلم جامعی*

بعض شخصیات اپنی آفاقیت اور ہمہ گیری کی بناء پر، نا قابلِ فراموش ہوا کرتی ہیں ان کی یادوں کے نقوش، ہمیشہ تازہ اور انمنٹ ہوا کرتے ہیں شب و روز کے رواں دواں قافلوں کی گَرد سے اس کی تابندگی ماند نہیں ہوتی ، اور نہ ہی گردشِ دوراں اس کی چمک پر اثر انداز ہوتی ہے، بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ ان کی قدر و قیمت میں، اضافہ ہوتا جاتا ہے ، ان کے تذکرے قلوب کو متأثر کرتے ہیں، روح میں تازگی پیدا کرتے ہیں، اور عمل کا جذبہ بیدار کرتے ہیں، ان کا علمی کارنامہ ہمیشہ گرمئ محفل کا سبب بنا کرتا ہے، نہ تو ان کا۔بار بار ذکر تکرارِ ثقل پیدا کرتا ہے اور نہ ہی سماعت پر گراں گزرتا ہے ، بلکہ ایمان کو قوت اور مشامِ جان کو معطر کرتا ہے ایسی ہی مبارک اور بابرکت ہستیوں میں سے ایک ہستی حضرت مولانا محمد سلیمان شمسی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی ہے، جنہوں نے اپنے علم کی تابانی سے ایک خلقِ کثیر کو فیضیاب کیا،
*جائے پیدائش و تاريخ پیدائش*
اہل علم کے درمیان، شمالی ہند کا مشہور و معروف ضلع اعظم گڑھ کسی لحاظ سے محتاجِ متعارف نہیں ہے، اس ضلع کی سرزمین نے علم وفن کے ایسے ایسے لعل و گہر پیدا کئے ہیں، جن کی تابندگی و تابناکی سے ایک دنیا کو روشنی ملی، عرصہ قدیم سے یہ ضلع اپنی مردم خیزی اور علم نوازی کے لئے معروف ہے ، ذہانت و ذکاوت یہاں کا ایک فطری جوہر ہے۔ یہاں جس طرح علوم وفنون کی مختلف شاخوں اور متنوع شعبوں میں با کمال افراد پیدا ہوئے ، اور دنیا والوں سے خراج تحسین وصول کیا، ایسے ہی درس تدریس، تعلیم و تعلّم، دعوت وتبلغ تصوف وسلوک کی مسندِ ہدایت پر ایک سے بڑھ کر ایک ہستیاں جلوہ گر ہوئیں، اور خدا سے بھٹکی ہوئی انسانیت کو خداکے حضور تک پہنچانے میں سرگرم و ساعی رہیں ایسے بزرگوں کی ایک طویل فہرست ہے تاریخ اور تذکروں کی کتابوں میں ان شخصیات و افراد کے کچھ ہلکے اور کچھ گہرے نقوش دیکھے جا سکتے ہیں، اب یہ ضلع دو حصوں میں تقسیم ہو چکا ہے ۔ ایک حصہ اپنے سابق نام پر قائم ہے، دوسراحصہ ضلع مئو کے نام سے موسوم ہوا ہے
اسی مئو کے ایک قصبہ خیر آباد میں شوال ١٣٣٦ھ جولائی 1918 ء کو مسندِ حدیث پر جلوہ افروز ہوکر علمی ضیاء پاشیوں سے تاریکیوں کو منور کرنے والے حضرت مولانا محمد سلیمان شمسی رحمۃ اللہ علیہ کی پیدائش ہوئی،
*نام و خاندان*
حضرت مولانا محمد سلیمان صاحب شمسی رحمۃ اللہ علیہ کا نام محمد سلیمان بن احمد علی بن عنایت اللہ ہے، حضرت کا گھرانہ دینی و دنیوی وجاہتوں سے معمور تھا، آپ کے دادا عنایت اللہ کے سگے برادر حافظ نعمت اللہ صاحب خیرآباد کے شہیر لوگوں میں سے تھے، اور آپ کے والد بھی علمی وصف سے متصف ہونے کے ساتھ فارسی پر مہارت تامہ رکھتے تھے، اسی طرح آپ کے دادا کے سات بھائی تھے، گویا ایک ہرا بھرا خاندان تھا،
*ابتدائی تعلیم و تربیت*
حضرت کی ابتدائی تربیت اور اخلاقی نشوونما آپ کے والدِ بزرگوار کی خاص دلچسپی کی مرہونِ منّت ہے کہ وہ اکثر اپنے ساتھ ہی شب بیداری کا عادی بناتے، اور ابتدائی تعلیم، اور نوشت و خواندگی اپنے علاقہ کے معروف مدرسہ، منبع العلوم میں (جس کو ، نام و نمود، ریا و شہرت سے پرے، خلوص و للاہیت سے لبریز چند خاصانِ خدا نے حضرت مولانا کرامت علی جونپوری رح کی تحریک و ترغیب پر قائم کیا تھا،) حضرت مولانا نزیر احمد صاحب خیرآبادی (والد مفتی حبیب الرحمن خیرآبادی) اور مولانا شاہ محمد صاحب سریّانوی سے حاصل کی، ( جو مولانا فاروق صاحب چڑیا کوٹی، مولانا عبدالعلیم صاحب رسلپوری، مولانا عبدالرحمن صاحب مبارک پوری، اور میاں نزیر حسین صاحب سے شرفِ تلمیذ رکھتے تھے لیکن اس کے باوجود پختہ قسم کے حنفی تھے،) ابتدائی اردو اور فارسی کی تعلیم کے بعد عربی تعلیم کے حصول کے لیے پورہ معروف میں تشریف لے گئے،( جو صاحبِ نسبت بزرگ شیخ محمد معروف کے نام سے موسوم ہے) اور پورہ معروف کے سب سے قدیم ، مدرسہ معروفیہ (جو ١٣٣٠ھ1912ء میں قائم ہوا) میں میزان الصرف سے لیکر شرح جامی تک تعلیم مولانا عبدالحئ صاحب مئوی (جو مولانا حبیب الرحمن صاحب مئوی اور مولانا عبداللطيف صاحب کے ہم درس اور مدرسہ معروفیہ کے صدر المدرسين تھے) اور مولانا شبلی شیدا صاحب سے حاصل کی،
*اعلیٰ تعلیم و فراغت*
پھر ١٣٥٥ھ میں اپنے والد کی ایماء پر ازہرِ ہند اخلاص کا تاج محل، دارالعلوم دیوبند تشریف لے گئے، جہاں بآسانی مطلوبہ درجہ میں داخلہ ہوگیا، مگر آب و ہوا راس نہ آئی، پورے سال امراض و عوارض کا سلسلہ جاری رہا، سال پورا کرکے گھر تشریف لائے اور چند دن گھر پر ٹھہرنے کے بعد جب صحت بحال ہوگئی، تو مدرسہ مفتاح العلوم مئو جانے کا فیصلہ کیا، جو ہندوستان کی ایک اہم بڑی، مرکزی اور دینی درسگاہ ہے،جہاں پر ہر سال ملک کے گوشے گوشے سے طالبانِ علوم نبوت اپنی علمی تشنگی بجھانے کے لئے آتے ہیں، اور یہاں محدث کبیر، محققِ جلیل حضرت مولانا حبیب الرحمن صاحب اعظمی، (شاگرد رشید علامہ انور شاہ کشمیری رح) حضرت مولانا عبداللطيف صاحب نعمانی،( سابق مہتمم مدرسہ مفتاح العلوم) اور حضرت مولانا ایوب صاحب اعظمی (سابق شیخ الحدیث جامعہ تعلیم الدین ڈابھیل) جیسے نابغۂ روزگار، اساطینِ علم و فن مسند تدریس پر رونق افروز تھے، چنانچہ حضرت نے محنت لگن، علمی انہماک اور درسی و خارجی کتب کا عمیق مطالعہ کے ساتھ ان حضرات کے سامنے زانؤئے ادب تہہ کیا، اور ١٣٥٨ھ دسمبر 1939 ء میں یہاں سے دورہ حدیث کی تکمیل کی اور سندِ فراغت سے بہرہ ور ہوئے،
*دیگر فنون میں مہارت*
زمانہ طالب علمی سے ہی حضرت کے اندر تقریر و خطابت کا پُر جوش ولولہ پنہاں تھا، پورہ معروف سے گھر تشریف لاتے تو خیرآباد کی جامع مسجد میں جمعہ میں تقریر کرتے، اسی ذوق و شوق اور مناسبت نے فراغت کے بعد امام اہل سنت حضرت مولانا عبدالشكور صاحب لکھنؤی کے قائم کردہ ادارہ دارالمبلغین لکھنؤ تک پہنچایا، جہاں امام اہل سنت کی نگرانی میں طلباء کو تحریر و تقریر اور مناظرہ کی مشق کرائی جاتی تھی، خصوصاً ردِ رافضیت پر خاص تیاری کرائی جاتی تھی آپ وہاں تین سال رہ کر تقریر و خطابت، فنِ مناظرہ اور مختلف علمی میدان میں کامیاب ہوگئے، آپ انتہائ ذہین و طباع تھے، فارسی زبان کا عمدہ ذوق رکھتے تھے مولانا شبلی صاحب شیدا کی صحبت نے دو آتشہ کا کام کیا، خود راقم السطور نے اپنے بعض بزرگوں سے سنا کہ ردِ شیعیت میں کوئی آپ کا مثل نہ تھا، ایک کرم فرما نے بتایا کہ ایک مرتبہ محرم الحرام کے ایام میں ردِ شیعیت پر بعض حضرات نے ایک جلسہ کا اہتمام کیا، شہر کے بعض علماء کے ساتھ حضرت مولانا شمسی صاحب رح بھی رونقِ اسٹیج تھے ایک خطیب صاحب نے بڑا مشہور شعر جو ہر خاص وعام زبان زد ہیں کہ “قتلِ حسین اصل میں مرگِ یزید ہے اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد” حضرت شمسی صاحب رح نے برملا فرمایا تھا کہ یہ کسی ملحد کا شعر ہے اس کا کہنا بھی جائز نہیں، اور پھر شعر کی مکمّل تشریح کی، اسی طرح مدحِ صحابہ میں قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کی
*شعر و ادب کا لگاؤ*
آپ کو فنِ شاعری میں بھی اچھا عبور حاصل تھا، زمانہ طالب علمی سے ہی بہترین نظمیں اور غزلیں کہتے تھے،
ان کی شاعری کے بارے میں مولانا فضلِ حق صاحب عارف خیر آبادی جو خود بھی ایک ادیب و شاعر ہیں، لکھتے ہیں : شمسی تخلص فرماتے تھے، شیداخیر آبادی سے شرفِ تلمذ نے آپ کو دبستانِ داغ کا بلبل ہزارِ داستان بنا دیا تھا شمسی خیر آبادی نے تمام اصنافِ سخن پر طبع آزمائی فرمائی ، نعتوں اور غزلوں کا معتد بہ حصہ اب بھی موجود ہے ، شمسی صاحب نے نعتیں لکھیں اور خوب لکھی ہیں ، بقول مولانا سید سلیمان ندوی ” نعت کی راہ شاعری کی مشکل ترین راہوں میں سے ہے ، اور تمام اصناف شاعری میں مشکل ہے ۔“ شمسی صاحب اس مشکل ترین وادی پُرخار کی جادہ پیمائی میں اپنے دامن کو غلوئے عقیدت اور شرک کی نحوست سے صاف بچالے گئے ہیں ۔… اسی طرح شمسی صاحب کی غزلوں میں حسن کی جلوہ گری کے ساتھ ساتھ عشق کی خودداری اور حوصلہ مندی بھی موجود ہے، وہ عشق کی عظمت و برتری کو اس انداز میں پیش فرماتے ہیں کہ حسن کی ساری جلوہ طرازیاں عشق کی رہینِ منت معلوم ہوتی ہیں ۔ (ماہنامہ الاسلام ربیع الاول1321ھ )
آپ کا مجموعہ کلام ” جامِ سخن یعنی منظوم کلامِ شمسی کے نام سے جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا سے آپ کے انتقال سے ایک ماہ قبل نومبر1999ء میں شائع ہوا تھا ، اسمیں دوسرے حضرات کی تقریظات تو ہیں لیکن خود مولانا نے اپنے کلام پر کچھ نہیں لکھا ہے،

راقم السطور کو اس بات کا قلق ہے کہ مضمون کے سلسلے میں حضرت مولانا شاہد جمال صاحب سے رابطہ نہ ہوسکا، جب رابطہ ہوا تو موصوف نے بتایا کہ حضرت شمسی صاحب رح کی سوانح حیات، حیاتِ شمسی کے نام سے مطبوعہ ہے مگر وہ کتاب پی ڈی ایف فائل میں نہیں ہے،
اور راقم السطور کا مضمون تحریر کرنے کا مقصد نئے فضلاء کو حضرت شمسی رحمۃ اللہ علیہ کی ذات سے متعارف کروانا تھا، اکثر نئے طلباء حضرت شمسی صاحب کا نام سنتے ہیں مگر کون ہے، یا کیا خدمات ہیں اس سے ناآشنا ہیں اسی جذبہ صادق کے تئیں یہ کاوش کی گئی خدا تعالیٰ خلوص نیت کے ساتھ ثبات قدمی عطا فرمائے آمین-

مفتی محمد اسلم جامعی استاذ دارالعلوم محمدیہ مالیگاؤں ضلع ناسک مہاراشٹر

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں